احتجاج کے متبادل کی تلاش ______احتجاج کے اپنے بہت سارے فائدے ہیں،
احتجاج کے متبادل کی تلاش
______احتجاج کے اپنے بہت سارے فائدے ہیں،لیکن احتجاج اس وقت مؤثر اور فائدہ مند ہوتاہے جبکہ وہ مد مقابل جس کے خلاف احتجاج کیا جا رہا ہے وہ حساس ہو اور احتجاج کرنے والوں کی اسے ضرورت بھی ہو۔ہندستان کی موجودہ حکومت مسلمانوں کے تئیں نہ حساس ہے اور نہ ہی اسے ہماری کوئی ضرورت ہے۔صاف لفظوں میں کہیں تو آج ہم ہندستانی مسلمان ایک عضو معطل کی طرح ہیں،جس کی نہ کسی کو کوئی پرواہ ہے اور نہ اس کی ضرورت۔
_____اب سوال یہ ہے کہ اگر دوسروں کو ہماری کوئی ضرورت نہیں ہے، تو کیا ہمیں بھی ان کی کوئی ضرورت نہیں ہے؟
کیا ملک کے اکثریتی طبقے کی طرح ہم بھی اپنے ماسوی طبقے کو عضو معطل بنانے کی پوزیشن میں ہیں؟
کیا یہ بات سیاسی بصیرت کے قبیل سے ہے کہ ہم اس بات پر خوش ہوں کہ ہم نے کوئی مسلم سیاسی پارٹی بنائی ہے اور اب ہماری تحریک یہی ہے کہ مسلمان صرف مسلمان کو ہی ووٹ کریں؟۔
میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ ملکی صورتحال میں اس طرح کی باتیں محض ایک خوش فہمی اور آبیل مجھے مار کے قبیل سے ہے۔ اور سیاسی بصیرت کا اس طرح کے نعروں اور حرکات و سکنات سے دور دور کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔ اور شاید آج اسی غلط نظریے اور رویوں نے ہم کو حاشیے پر لا کھڑا کیا ہے، جہاں ہم بالکل الگ تھلگ پڑے ہیں۔
_____آج ہم نے تمام سیاسی پارٹیوں کے خلاف اپنا غیر منظم محاذ کھول رکھا ہے۔ نتیجۃ آج ہم نہ گھر کے ہیں اور نہ گھاٹ کے، اور ایسے لوگ ذلیل و خوار ہی ہوتے ہیں جو نہ گھر کے ہوں نہ گھاٹ کے۔
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
______ہم خود سے ناکام ہیں اور اپنی ناکامی کا ٹھیکرا صرف سیاسی پارٹیوں پر پھوڑتے ہیں۔ گویا کہ1947ء کی آزادی کے بعد سے سیاسی پارٹیوں نے ہی ہمیں جاہل بنا کر رکھا ہے۔ انھوں نے ہی ہمیں پڑھنے لکھنے اور ترقی کرنے سے روک رکھا ہے۔آج ہماری ، سیاسی ،سماجی ، معاشی بلکہ اخلاقی زوال کے واحد ذمہ دار وہی ہیں اور ہم پورے طور پر معذور ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے قائدین نے ہر چھوٹے بڑے مسائل اور حقوق طلبی کے نام پر ہمیں سراپا احتجاج بناکر استحصال کرنے میں کبھی کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیا ۔ہمیں جلسہ، جلوس، دھرنا، پردرشن میں الجھا کر اپنی طاقت دکھانے اور جتانے کی کا کوئی شوشہ خالی نہیں چھوڑا۔ بلکہ پوری ڈھٹائی سے اپنی ذاتی فائدے کے لیے قوم و ملت کا سودا تک کرنے میں بھی کبھی کوئی جھجھک محسوس نہیں کیا۔لیکن کچی بنیاد پر کھڑی عمارت کی میعاد آخر کب تک؟ بعد میں وہ خود سیاسی مہرا بن گئے اور استعمال ہونے کے بعد شہد میں سے مکھی کی طرح نکال کر باہر پھینک دیے گئے۔
علامہ اقبال نے کہا تھا
اپنی حِکمت کے خم و پیچ میں اُلجھا ایسا
آج تک فیصلۂ نفع و ضرر کر نہ سکا
______آزادی کے وقت ہندوستان کی سبھی ذاتیوں میں جہالت و غربت کی کثرت تھی۔ اور بہت ساری ذاتیاں مسلمانوں کے مقابلے میں بہت زیادہ غریب و جاہل تھیں۔ لیکن مسلمانوں کو چھوڑ کر ان تمام غریب و خطِ افلاس سے نیچے رہنے والی ذاتیاں خاموشی کے ساتھ تعلیم و تربیت کی جانب متوجہ ہوئیں۔ اور آج وہ لوگ مسلمانوں کے مقابلے میں سیاسی،سماجی ،معاشی طور پر کافی مضبوط و مستحکم ہیں۔ جبکہ ہم مسلمان احتجاج، جلسہ ،جلوس، دھرنہ، پر درشن، آپسی انتشار و افتراق، فرقہ بندی، مسلکی جھگڑے، مناظرہ بازی ، منہ توڑ جواب اور جواب الجواب میں الجھ کر اور پیچھے ہو گئے اور مسلسل پیچھے ہوتے چلے جارہے ہیں۔
اگر مذکورہ باتیں سچ ہیں۔ تو ہمیں اپنی روش کو بدلنی چاہیے، اور خود کو منوانے کے لیے قابل قدر بننے کی کوشش کرنی چاہیے۔ آج ہمیں ملک عزیز کے لیے ضرورت بننا چاہیے۔
____ ترقی اور کامیابی کے لیے تین ضرورتیں ہیں، اور وہی تین چیزیں قیمتی بھی ہیں۔ *علم، ہنر اور سرمایہ۔* ہر مسلمان کے پاس یہ تینوں چیزیں آجائیں۔ یعنی مسلمانوں کا ہر فرد تعلیم یافتہ ہو ،ہنر مند ہو یا اچھی تجارت کرنے والا ہو۔ ہمیں اس کی تحریک چلانی چاہئے کہ ہر فرد تعلیم یافتہ ہو، ہر شخص ترقی یافتہ ہو، ہر گھر علم سے روشن ہو ، اب وقت آگیا ہے کہ ہم ان ہی نعروں کے ساتھ اپنی قوم و ملت کی خدمت کریں۔
اس کی تقدیر میں محکومی و مظلومی ہے
قوم جو کر نہ سکی اپنی خودی سے انصاف
فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف
Comments
Post a Comment