Zakat , زکاة
-: کتاب الزکوة :-
کیا آپ جانتے ہیں ؟
قسط ؛ ۶
“ زکوة میں نیت شرط ہے “
اقول: وقد ظہر ھذا من مسائل البشیر والطبال ومھدی البالکورۃ فانہ انما یحمل الناس علی الدفع الیھم افعالھم ھذھ ولو لم یفعلو افلر بمالم ید فع الیھم شیئ ومن ذلك مسئلۃ دفع العیدی بنیۃ الزکوٰۃ الی خدامہ من الرجال و النساء حیث یقع عن الزکوٰۃ کما فی المعراج وغیرہ مع العلم با نہ لو لم یخدموہ لما اعطا ھم و با لجملۃ فھذہ العلائق تکون بواعث للناس علیٰ تخصیصھم بصرف الزکوٰۃ فد وران العطاء معھا وجودا وعد ما لا یعین معنی التعویض وانما المراجع النیۃ فا ذا خلصت اجزت۔
اقول: بشارت دینے والے ، سحر خواں ( سحری کے وقت بیدار کرنے والا ) اور نئے پھلوں کا ہدیہ دنے والے کے مسائل سے بھی یہ بات واضح ہوگئی ہے کیونکہ لوگ ان کو ان کے عمل کی وجہ سے دیتے ہیں ، اگر وُہ یہ کام نہ کریں تو اکثر اوقات ان بیچاروں کو کچھ بھی نہیں دیا جاتا ، اسی طرح یہ مسئلہ کہ خدام(خواہ مرد ہوں یا خواتین )کو نیت زکوٰۃ سے عیدی دینے سے زکوٰۃ ادا ہوجاتی ہے ، جیسا کہ معراج وغیرہ میں ہے ، حالانکہ یہ بات مسلّمہ ہے کہ اگروُہ خدمت نہ کرتے تو انھیں یہ رقم نہ ملتی ، الغرض یہ وہ تعلقات ہیں جن وجہ سے لوگ ان مخصوص لوگوں کو زکوٰۃ دیتے ہیں تو اب عطا کا تعلقات کے ساتھ دوران وجودًا وعدمًاعوض بنانے کے معنٰی کو معیّن نہیں کر تا، نیّت پر مدار ہوگا جب نیّت خالص ہو گی تو زکوٰۃ ادا ہو جائیگی ۔ (ت
جب یہ امور ذہن نشین ہولیے تو جوابِ مسئلہ بحمدہٖ تعالٰی واضح ہوگیا ، اگر وُہ اگر دینے والے بقصدِ معاوضہ و بطورِ اُجرت دیتے یا نیتِ زکوٰۃکے ساتھ یہ نیت بھی ملالیتے تو بیشك زکوٰۃ ادا نہ ہوتی ۔
امّا علی الاوّل فلعدم النیۃ واما علی الثانی فلعدم الاخلاص ولایکون کنیۃ الحمیۃ مع نیۃ الصوم حیث تجزی لانھا نیۃ لازم لا نیۃ مناف کما افادہ المولی المحقق علی الاطلاق فی فتح القدیر ولا کذلك ما ھنا فان التعویض یبائن التصدق ۔
پہلی صورت (بقصدِ معاوضہ و اجرت) میں نیتِ زکوٰۃ ہی نہیں اور دوسری صورت یعنی (زکوٰۃ کے ساتھ معاوضہ کی نیت بھی ہو ) تو اخلاص نہ ہونے کی وجہ سے زکوٰۃ ادا نہ ہوگی اور اس طرح نہیں جیسے بخار کی بناء پر رخصت کی نیت روزہ کی نیت کے ساتھ کہ یہ جا ئز ہے کیونکہ نیت اس صورت میں لازم کی نیّت ہے منافی کی نہیں ، جیساکہ مولی محقق علی الاطلاق نے فتح القدیرمیں افادہ فرمایا ہے اور یہاں ایسا نہیں ہے کیونکہ معاوضہ میں دینا صدقہ کہ منافی ہے۔
جبکہ تقریر سوال سے ظاہر کہ انہوں نے محض بنیت زکٰوۃ دیا اور اسے زکوٰۃ ہی خیال کیا،معاوضہ و اُجرت کا اصلًالحاظ نہ تھا تو بے شك زکوٰۃ ادا ہوگئی اگر چہ وہ شخص جسے زکوٰۃ دی گئی اپنے علم میں کچھ جانتا ہو ، اگر چہ انہوں نے اس سے صاف کہہ بھی دیا کہ یہاں رہوگے تو دیں گے ورنہ نہ دیں گے، اگر چہ وُ ہ عمل بھی اس کے مطابق کریں یعنی ایامِ حاضری میں دیں غیر حاضری میں نہ دیں کہ جب نیت میں صرف زکوٰۃ کا خاص قصد ہے تو اُ ن میں کوئی امر اُ س کا نافی و منافی نہیں۔
کما حققنا فالا فتاء ھھنا بعدم الاجزاء بناء علیٰ مخالفۃ علم المدفوع الیہ کماوقع عن بعض المدعین علو ا الکعب فی العلم الدینیۃ ناش عن قلۃ التدبیر او سوء الفھم واﷲالمستعان وعلیٰ ازالۃ الوھم والحمدﷲ واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔
جیسا کہ ہم نے تحقیق کی ہے ، پس اب اس پر فتوٰی دینا کہ یہاں زکوٰۃ دینا اسلئے جائز نہیں کہ جس کو دی جارہی ہے اس کے علم میں یہ نہیں ہے ، جیسا کہ علمِ ِدین میں اپنے فوقیت کا اعلان کرنے والے بعض حضرات نے کیا، یہ قلت تدبریا سوءِ فہم کی وجہ سے ہُوا۔
اﷲتعالٰی ہی ازالہ وہم پر مدد گار ہے ۔
والحمد ا ﷲ والله سبحٰنہ وتعالٰی اعلم
جاری ہے ۔۔۔۔۔
( “ الرسالہ تجلی الشکاة لانارة اسئلة الزکاة “ )
( “ الفتاوی الرضویہ “ کتاب الزکوة ، جلد ۱۰ ، صحفہ ۶۹ )
طالب دعا : سید جیلانی میاں جیلانی
خانقاہ مدنی سرکار ۔ موربی
کیا آپ جانتے ہیں ؟
قسط ؛ ۶
“ زکوة میں نیت شرط ہے “
اقول: وقد ظہر ھذا من مسائل البشیر والطبال ومھدی البالکورۃ فانہ انما یحمل الناس علی الدفع الیھم افعالھم ھذھ ولو لم یفعلو افلر بمالم ید فع الیھم شیئ ومن ذلك مسئلۃ دفع العیدی بنیۃ الزکوٰۃ الی خدامہ من الرجال و النساء حیث یقع عن الزکوٰۃ کما فی المعراج وغیرہ مع العلم با نہ لو لم یخدموہ لما اعطا ھم و با لجملۃ فھذہ العلائق تکون بواعث للناس علیٰ تخصیصھم بصرف الزکوٰۃ فد وران العطاء معھا وجودا وعد ما لا یعین معنی التعویض وانما المراجع النیۃ فا ذا خلصت اجزت۔
اقول: بشارت دینے والے ، سحر خواں ( سحری کے وقت بیدار کرنے والا ) اور نئے پھلوں کا ہدیہ دنے والے کے مسائل سے بھی یہ بات واضح ہوگئی ہے کیونکہ لوگ ان کو ان کے عمل کی وجہ سے دیتے ہیں ، اگر وُہ یہ کام نہ کریں تو اکثر اوقات ان بیچاروں کو کچھ بھی نہیں دیا جاتا ، اسی طرح یہ مسئلہ کہ خدام(خواہ مرد ہوں یا خواتین )کو نیت زکوٰۃ سے عیدی دینے سے زکوٰۃ ادا ہوجاتی ہے ، جیسا کہ معراج وغیرہ میں ہے ، حالانکہ یہ بات مسلّمہ ہے کہ اگروُہ خدمت نہ کرتے تو انھیں یہ رقم نہ ملتی ، الغرض یہ وہ تعلقات ہیں جن وجہ سے لوگ ان مخصوص لوگوں کو زکوٰۃ دیتے ہیں تو اب عطا کا تعلقات کے ساتھ دوران وجودًا وعدمًاعوض بنانے کے معنٰی کو معیّن نہیں کر تا، نیّت پر مدار ہوگا جب نیّت خالص ہو گی تو زکوٰۃ ادا ہو جائیگی ۔ (ت
جب یہ امور ذہن نشین ہولیے تو جوابِ مسئلہ بحمدہٖ تعالٰی واضح ہوگیا ، اگر وُہ اگر دینے والے بقصدِ معاوضہ و بطورِ اُجرت دیتے یا نیتِ زکوٰۃکے ساتھ یہ نیت بھی ملالیتے تو بیشك زکوٰۃ ادا نہ ہوتی ۔
امّا علی الاوّل فلعدم النیۃ واما علی الثانی فلعدم الاخلاص ولایکون کنیۃ الحمیۃ مع نیۃ الصوم حیث تجزی لانھا نیۃ لازم لا نیۃ مناف کما افادہ المولی المحقق علی الاطلاق فی فتح القدیر ولا کذلك ما ھنا فان التعویض یبائن التصدق ۔
پہلی صورت (بقصدِ معاوضہ و اجرت) میں نیتِ زکوٰۃ ہی نہیں اور دوسری صورت یعنی (زکوٰۃ کے ساتھ معاوضہ کی نیت بھی ہو ) تو اخلاص نہ ہونے کی وجہ سے زکوٰۃ ادا نہ ہوگی اور اس طرح نہیں جیسے بخار کی بناء پر رخصت کی نیت روزہ کی نیت کے ساتھ کہ یہ جا ئز ہے کیونکہ نیت اس صورت میں لازم کی نیّت ہے منافی کی نہیں ، جیساکہ مولی محقق علی الاطلاق نے فتح القدیرمیں افادہ فرمایا ہے اور یہاں ایسا نہیں ہے کیونکہ معاوضہ میں دینا صدقہ کہ منافی ہے۔
جبکہ تقریر سوال سے ظاہر کہ انہوں نے محض بنیت زکٰوۃ دیا اور اسے زکوٰۃ ہی خیال کیا،معاوضہ و اُجرت کا اصلًالحاظ نہ تھا تو بے شك زکوٰۃ ادا ہوگئی اگر چہ وہ شخص جسے زکوٰۃ دی گئی اپنے علم میں کچھ جانتا ہو ، اگر چہ انہوں نے اس سے صاف کہہ بھی دیا کہ یہاں رہوگے تو دیں گے ورنہ نہ دیں گے، اگر چہ وُ ہ عمل بھی اس کے مطابق کریں یعنی ایامِ حاضری میں دیں غیر حاضری میں نہ دیں کہ جب نیت میں صرف زکوٰۃ کا خاص قصد ہے تو اُ ن میں کوئی امر اُ س کا نافی و منافی نہیں۔
کما حققنا فالا فتاء ھھنا بعدم الاجزاء بناء علیٰ مخالفۃ علم المدفوع الیہ کماوقع عن بعض المدعین علو ا الکعب فی العلم الدینیۃ ناش عن قلۃ التدبیر او سوء الفھم واﷲالمستعان وعلیٰ ازالۃ الوھم والحمدﷲ واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔
جیسا کہ ہم نے تحقیق کی ہے ، پس اب اس پر فتوٰی دینا کہ یہاں زکوٰۃ دینا اسلئے جائز نہیں کہ جس کو دی جارہی ہے اس کے علم میں یہ نہیں ہے ، جیسا کہ علمِ ِدین میں اپنے فوقیت کا اعلان کرنے والے بعض حضرات نے کیا، یہ قلت تدبریا سوءِ فہم کی وجہ سے ہُوا۔
اﷲتعالٰی ہی ازالہ وہم پر مدد گار ہے ۔
والحمد ا ﷲ والله سبحٰنہ وتعالٰی اعلم
جاری ہے ۔۔۔۔۔
( “ الرسالہ تجلی الشکاة لانارة اسئلة الزکاة “ )
( “ الفتاوی الرضویہ “ کتاب الزکوة ، جلد ۱۰ ، صحفہ ۶۹ )
طالب دعا : سید جیلانی میاں جیلانی
خانقاہ مدنی سرکار ۔ موربی
Comments
Post a Comment