قادیانی ، Qadiyani

(١)ماقولکم ایھا العلماء الکرام(اے علماء کرام! آپ کا کیا ارشاد ہے۔ت)مرزا غلام احمد قادیانی کو مجدد مہدی،مسیح موعود اور پیغمبر صاحب وحی والہام ماننے والے مسلمان ہیں یا خارج ازاسلام اور مرتد۔
(٢)بہ شکل ثانی اس کا نکاح کسی مسلمہ یا غیر مسلمہ یا ان کی ہم عقیدہ عورت سے شرعا درست ہے یانہیں؟
(٣)بہ صورت ثانیہ جس عورت کا نکاح ان لوگوں کے ساتھ منعقد کیا گیا ہے ان عورات کو اختیار حاصل ہے کہ بغیر طلاق لیے اور بلاعدت کسی مرد مسلم سے نکاح کرلیں۔بینوا آجرکم الله تعالٰی
الجواب:
(١)لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ صلی الله تعالٰی علیہ وسلم کے بعد کسی کو نبوت ملنے کاجو قائل ہو 
وہ تو مطلقًا کافر مرتد ہے اگرچہ کسی ولی یا صحابی کے لیے مانے، قال الله تعالٰی:
وَلٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ  [1]۔وقال صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم: انا خاتم النبیین لانبی بعدی [2]۔
لیکن الله تعالٰی کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔(ت)
حضور اکرم صلی الله تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں(ت)
لیکن قادیانی توایسا مرتدہے جس کی نسبت تمام علمائے کرام حرمین شریفین نے بالا تفاق تحریر فرمایا ہے کہ من شك فی کفرہ فقد کفر [3](جس نے اس کے کفر میں شك کیا ہو کافرہوگیا۔ت)اسے معاذالله مسیح موعود کیا مہدی یا مجدد یا ایك ادنی درجہ کا مسلمان جاننا درکنار جو اس کے اقوال ملعونہ پر مطلع ہوکراس کے کافر ہونے میں ادنی شك کرے وہ خود کافر مرتد ہے،والله تعالٰی اعلم۔
(٢)قادیانی عقیدے والے قادیانی کو کافر مرتد نہ ماننے والے مرد خواہ عورت کانکاح اصلا ہرگز زنہار کسی مسلم کافر یا مرتد اس کے ہم عقیدہ یا مخالف العقیدہ غرض تمام جہان میں انسان حیوان جن شیاطین کسی سے نہیں ہوسکتا جن سے ہوگا زنائے خالص ہوگا۔فتاوی عٰلمگیریہ میں ہے:
لایجوز للمرتد ان یتزوج مرتدۃ ولامسلمۃ ولاکافرۃ اصلیۃ وکذلك لایجوز نکاح المرتدۃ مع احد،کذافی مبسوط [4]۔
مرتد کو کسی مرتدہ،مسلمہ یا اصلی کافرہ عورت سے نکاح جائز نہیں،ایسے ہی مرتدہ کو کسی مرد سے نکاح جائز نہیں، جیساکہ مبسوط میں ہے۔(ت)
اسی میں دربارہ تصرفات مرتد ہے:
منھا ماھو باطل بالاتفاق نحوالنکاح فلا یجوز لہ ان یتزوج امرأۃ مسلمۃ ولامرتدۃ ولاذمیۃ ولاحربیۃ ولامملوکۃ [5]۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
بعض وہ چیزیں جو بالاتفاق باطل ہیں جیسے نکاح تو اس کے لیے کسی مسلمہ مرتدہ اور اصلی کافرہ اور ذمی عورت،حربیہ اور لونڈی سے نکاح باطل ہے۔(ت)والله تعالٰی اعلم۔


جس مسلمان عورت کا غلطی خواہ جہالت سے کسی کے ساتھ نکاح باندھا گیا اس پر فرض فرض فرض ہے
کہ فورًا فورًا اس سے جدا ہوجائے کہ زنا سے بچے اور طلاق کی کچھ حاجت نہیں بلکہ طلاق کاکوئی محل ہی نہیں،طلاق تو جب ہو کہ نکاح ہوا ہو،نکاح ہی سرے سے نہ ہوا،نہ اصلا عدت کی ضرورت کہ زنا کے لیے عدت نہیں،بلاطلاق بلاعدت جس مسلمان سے چاہے نکاح کرسکتی ہے،درمختار میں ہے:
نکح کافر مسلمۃ فولدت منہ لایثبت النسب منہ ولاتجب العدۃ لانہ نکاح باطل [1]۔
کافرنے مسلمان عورت سے نکاح کیا جس سے اولاد ہوئی تو اس سے نسب ثابت نہ ہوگا،عورت پر عدت واجب نہ ہوگی کیونکہ یہ نکاح باطل ہے۔(ت)
ردالمحتار میں ہے:
ای فالوطء فیہ زنا لایثبت بہ النسب [2]۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
یعنی اس میں وطی زنا ہے جس سے نسب ثابت نہیں ہوتا۔ (ت)والله تعالٰی اعلم۔

Comments

Popular posts from this blog

تراویح ، رمضان ، Ramzan, Taravih

جس کا کوئی پیر نہیں ، اس کا پیر شیطان ہے کا صحیح مفہوم کیا ہے؟

Hazrat Khwaja Hasan al-Basri rahmatullāhi alaihi :