Posts

Showing posts from 2021

رفع یدین کرنا خلاف سنت اور ممنوع ہے

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے تعلق سے کہ احناف کے نزدیک نماز میں رفع یدین کرنا کیسا ہے؟ جبکہ غیر مقلدین؛ اہلحدیث رفع یدین پر ایڑی چوٹی کا زور دیتے ہیں؛ برائے کرم جواب عنایت فرمائیں؛؛  الجواب بعون الملک الوہاب  صورت مسؤلہ میں احناف اہل سنت کے نزدیک رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین کرنا یعنی دونوں ہاتھ اٹھانا خلاف سنت اور ممنوع ہے مگر  غیر مقلدین رفع یدین کرتے ہیں اور اس پر بہت زور دیتے ہیں  اسی تعلق سے ایک غیر مقلد کا ایک پوسٹ نظر نواز ہوا جو اس طرح تھا کہ "جب مجھے نماز میں رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین نہ کرنے کی ایک بھی دلیل احادیث سے نہ مل سکی تو میں اہل حدیث ہو گیا" میں نے اس کی اس افترابازی کا جواب دینے کیلئے چند احادیث کا ذکر کرنا ضروری سمجھا؛؛  لھذا رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین کرنا مکروہ اور خلاف سنت ہے اس مسئلہ پر حدیث پاک ملاحظہ فرماکر غیر مقلدین کے فریب سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں  (1) حدیث شريف ) ترمذى،  أبوداود ، نسائی اور ابن ابی شیبہ نے حضرت علقمہ رضی اللہ تعالی سے روایت کی... قا

امامت

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایك شخص کو کہ نہ حافظ قرآن ہے نہ مسائل دان نہ علمِ قرأت سے واقف ایك معمولی اردوخواں بلکہ بازار میں کتب فروشی و نعلین فروشی کی دکان کرنےوالا ہے ایك مسجد کا امام بننا چاہتا ہے حالانکہ دو عالم متقی ومحتاط اسی مسجد میں اور بھی موجود ہیں اور مہتمم مسجد واکثر نمازی اس شخص کی امامت سے راضی نہیں اس صورت میں ایسے امام کے حق میں کیا حکم ہے اور ان علماء کی اقتداء کی نسبت کیا ارشاد ہے؟ بینوا تو جروا الجواب: صورتِ مسئولہ میں اُس شخص کو امام بننا جائز نہیں اگر امامت کرے گا گنہگار ہوگا جب لوگ اسکی امامت اس وجہ سے ناپسند رکھتے ہیں کہ اُس سے زیادہ علم والے موجود ہیں تو اُسے امامت کرنا شرعًا منع ہے۔ درمختار میں ہے : لو ام قوماوھم لہ کارھون ان الکراھۃ لفساد فیہ اولانھم احق بالامامۃ منہ کرہ لہ ذلك تحریما١ [] الخ اگرکوئی کسی قوم کا امام بنا حالانکہ وہ لوگ اس کو برا جانتے ہیں تو اگران کی نفرت امام کے اندر کسی خرابی کی وجہ سے ہے یا اس وجہ سے کہ وہ لوگ بنسبت امام مذکور کے امامت کے زیادہ مستحق ہیں تو اس شخص کو امام ہونا مکروہِ تحریمی ہے الخ۔(ت) پس شخص مذکور ہر گز

Masjid مسجد

 کیا آپ جانتے ہیں ؟  علماء فرماتے ہیں دروازہ مسجد پر جو دُکانیں ہیں فنائے مسجد ہیں کہ مسجد سے متصل ہیں ، فتاوٰی امام قاضی خاں پھر فتاوٰی علمگیریہ میں ہے: یصح الاقتداء لمن قام علی الدکاکین التی تکون علی باب المسجد لانھامن فناء المسجد متصلۃ بالمسجد۔ ] اس شخص کی اقتداء درست ہے جو اس دکان پر کھڑا ہے جو مسجد کے دروازے پر ہے کیونکہ یہ فنائے مسجد میں ہونے کی وجہ سے مسجد سے متصل ہے۔(ت) ظاہر ہے کہ جو دُکانیں دروازہ پر ہیں صحن مسجد سے متصل ہیں نہ درجہ مسقفہ سے ،تو لاجرم صحنِ مسجد مسجدہے، اور یہیں سے ظاہر کہ صحن کو فنا کہنا محض غلط ہے اگر وہ فنائے مسجد ہوتا تو دکانیں کہ اس سے متصل ہیں متصل بہ فنا ہوتیں ، نہ متصل بہ مسجد ، پھر ان دکانوں کے فنا ٹھہرنے میں کلام ہوتا کہ فنا وہ ہے جو متصل بہ مسجد ہو نہ وہ کہ متصل بہ فنا ہو، ورنہ اس تعریف پر لزوم دَور کے علاوہ متصل بالفنا بھی فنا ٹھہرے تو سارا شہر یا لااقل تمام محلہ فنائے مسجد قرار پائے  کما لایخفی (جیسا کہ مخفی نہیں۔ت) اور یہ ادعا کہ صحن وفنا کا مفہوم واحد  جہل شدید ہے کہ کسی عاقل سے معقول نہیں ، شاید یہ قائل اُن دکانوں کو بھی صحن مسجد کہے گا۔ ( “ الف

Masjid مسجد

  حدیث  لاصلٰوۃلجارالمسجدالافی المسجد [] ) مسجد کے  پڑوسی کی نماز ، مسجد کے علاوہ نہیں ہو سکتی۔ کی تعمیل کہاں ہوئی اور سنتِ عظیمہ جلیلہ کس واسطے چھوڑی ، کہا کو ئی ذی عقل مسلمان گوارا کرے گا کہ مکان چھوڑ کر آوازِ آذان سُن کر نماز کو جائے اور مسجد ہو تے ساتے مسجد میں نہ پڑھے بلکہ اس کے حریم و حوالی میں نماز پڑھ کر چلا آئے، کیا اہل عقل ایسے شخص کو مجنون نہ کہیں گے، تو ا نکار والوں کا قو ل وفعل قطعًا متناقض، اگر یہ عذر کریں کہ جہاں امام نے پڑھی مجبوری ہیں پڑھنی ہوئی ہے تو محض بیجا و نا معقول وناقابل قبول ، آپ صاحبوں پر حقِ مسجد کی رعایت اتباعِ جماعت سے اہم و اقدم تھی، جب آپ نے دیکھا کہ سب اہل جماعت مسجد چھوڑ کر غیر مسجد میں نماز پڑھتے ہیں آپ کو چاہئے تھا خود مسجد میں جاکر پڑھتے، اگر کوئی مسلمان آپ کا ساتھ دیتا جماعت کرتے ورنہ تنہا ہی پڑھتے کہ حقِ مسجد سے ادا ہوتے۔ یہاں تك علما اس تنہا پڑھنے کو دوسری مسجد میں باجماعت پڑھنے سے افضل بتاتے ہیں نہ کہ غیر مسجد میں۔ فتاوٰی امام قاضی خاں پھر خزانۃ لمفتین پھر ردلمحتار وغیرہ میں ہے۔ یذھب الی مسجد منزلہ ویؤذن فیہ ویصلی وان کان واحدًا لان لمسجد منزلہ

مسجد masjid

کیا آپ جانتے ہیں ؟ کہ اگر عمارت اصلًا نہ ہو صرف ایك چبوترہ یا محدودمیدان نماز کے لئے وقف کردیں قطعًا مسجد ہوجائے گا اور تمام احکامِ مسجد کااستحقاق پائے گا۔  فتاوٰی قاضی خاں وفتاوٰی ذخیرہوفتاوٰی علمگیریوغیرہا میں ہے; رجل لہ ساحۃ امر قوما ان یصلوافیھا بجماعۃان قال صلوا فیھاابداا وامرھم بالصلٰوۃ مطلقا و نوی الابدصارت الساحۃ مسجدا لو مات لا یورث عنہ اھ ملخصًا ایك آدمی کی کُھلی جگہ ہے لوگوں سے کہتا ہے کہ یہاں نماز اداکرو، اب اگر اس نے یہ کہاکہ یہاں ہمیشہ تم نماز پڑھو، یا اتنا کہا نماز پڑھو مگر نیّت ہمیشہ کی ،تو وہ جگہ مسجد کہلائے گی _ اگر وُہ فوت ہو جاتا ہے تو وہ زمین وراثت میں شامل نہ ہو گی ( “ الفتاوی الرضویہ “ جلد ۸ صحفہ ۶۱ ) طالب دعا : سید جیلانی میاں جیلانی خانقاہ مدنی سرکار موربی گجرات #مسجد #SaiyedJillaniMiya

مسجد Masjid

  کیا فر ماتے ہیں علما ئے دین جواب اس مسئلہ کا کہہ سقفِ مسجد پر بسبب گرمی کے نما ز پڑھنا جا ئز ہے یا نہیں۔  بینوا توجروا ۔    الجواب:  مکروہ ہے کہ مسجد کی بے ادبی ہے، ہا ں اگر مسجد جماعت پر تنگی کرے نیچے جگہ نہ رہے تو باقی ماند ہ لوگ چھت پر صف بندی کر لیں یہ بلا کر اہت جائز ہے کہ اس میں ضرورت ہے بشرطیکہ حال اما م مشتبہ نہ ہو۔ فی العلمگیریۃ ا ل صعود علی کل مسجد مکروہ ولھذا اذا   اشتد الحریکرہ ان یصلوا بالجماعۃ فوقہ الااذاضاق المسجد فحٍ لایکرہ الصعود علی سطحہ لضرورۃ کذا فی الغرائب ۔واﷲ تعالٰی اعلم۔ عالمگیری میں ہے ہر مسجد کے اوپر چڑھنا مکروہ ہے ، یہی وجہ ہے کہ شدید گرمی کے وقت اس کے اوپر جماعت کرانا مکروہ ہے البتہ اس صورت میں کہ مسجد نمازیوں پر تنگ ہو جا ئے تو ضرورت کی وجہ سے مسجد کی چھت پر چڑھنا مکروہ نہیں ۔ جیسا کہ غرائب میں ہے۔  واﷲ تعالٰی اعلم  (ت) ( الفتاوی الرضویہ “ جلد ۸ صحفہ ۵۷ ) طالب دعا : سید جیلانی میاں جیلانی خانقاہ مدنی سرکار موربی گجرات

Qadiani ka Rad . قادیانی کا رد

   -:   رد   فرقہ   قادیانیہ   مرزائیہ   :-  کیا   آپ   جانتے   ہیں     ؟ قسط  :  ۱    -:    رد   فرقہ   قادیانیہ   مرزائیہ     :- ( ۱ )  ایسا   شوہر   جو   مرزاقادیانی   کے   مریدوں   میں   منسلک   ہو   کوکر   صبغ   عقائد   کفریہ   مرزائیہ   سے   مصطبغ   ہو   کو   کر   علی   رؤس   الاشہاد ضروریات   دین   سے   انکار   کرتا   رہتا   ہے   سو   مطلوب   عن   الاظہار   یہ   ہے   کہ   شخص   شرعا   مرتد   ہوچکا   اور   اس   کی   منکوحہ   اس   کی زوجیت   سے   علیحدہ   ہو   چکی   اور   منکوحہ   کا   کل   مہر   معجل   ،   مؤجل   مرتد   کے   ذمہ   ہے   ،   اولاد   صغار   اپنے   والد   مرتد   کی   ولایت   سے نکل   چکی   ہے   اور   یسا   شخص   عقیدہ   مرزائیہ   کا   ہے   ،   جو   بہ   اتفاق   علمائے   دین   کافر   ہے   ،   مرتد   ہوچکا   ،   منکوحہ   زوجیت   سے علیحدہ   ہو   چکی   ،   کل   مہر   بہ   ذمہ   مرتد   واجب   الادا   چکا   ،   مرتد   کو   اپنی   اولاد   صغار   پر   ولایت   نہیں   ۔ ( ۲ )  شک   نہیں   کہ   مرزاقادیانی   اپنے   آپ   کو   رسول   ﷲ   ،   نبی   ﷲ   کہتا   ہے   اور   اس   کے