Posts

Showing posts from April, 2020

تراویح ، رمضان ، Ramzan, Taravih

کیا آپ جانتے ہیں  ؟ آج کل اکثر رواج ہوگیا ہے کہ حافظ کو اُجرت دے کر تراویح پڑھواتے ہیں  یہ ناجائز ہے ۔ دینے والا اور لینے والا دونوں  گنہگار ہیں ، اُجرت صرف یہی نہیں  کہ پیشتر مقرر کر لیں  کہ یہ لیں  گے یہ دیں  گے، بلکہ اگر معلوم ہے کہ یہاں  کچھ ملتا ہے، اگرچہ اس سے طے نہ ہوا ہو یہ بھی ناجائز ہے کہ اَلْمَعْرُوْفُ کَالْمَشْرُوْطِ ہاں  اگر کہہ دے کہ کچھ نہیں  دوں  گا یا نہیں  لُوں  گا پھر پڑھے اور حافظ کی خدمت کریں  تو اس میں  حرج نہیں  کہ اَلصَّرِیْحُ یُفَوِّقُ الدَّلَالَۃَ  ، صراحت کو دلالت پر فوقیت ہے ۔ ( “ بہار شریعت “ جلد ۴ ، ۶۹۵ ) طالب دعا : سید جیلانی میاں جیلانی خانقاہ مدنی سرکار ۔ موربی https://chat.whatsapp.com/JisyhwFq9Ea8eottd28Iqm

زکاة ۔ zakat

-: کتاب الزکوة :- کیا آپ جانتے ہیں ؟ قسط ؛ ۷ ( “ زکاة میں جس قدر چیز محتاج کی ملک میں گئی بازار کے بھاؤ سے جو قیمت اس کی ہے وہی مجراہوگی “ ) کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ان دنوں قحط میں بعض آدمی مد زکوٰۃ میں بھوکوں کو غلّہ مکّا وغیرہ تقسیم کر تے ہیں ، یہ جائز ہے یا نہیں؟بینواتوجروا الجواب: زکوٰۃ میں روپے وغیرہ کہ عوض بازار کے بھاؤ سے اس قیمت کا غلّہ مکّا وغیرہ محتاج کو دے کر بہ نیت زکوٰۃ مالک کردینا جائز و کافی ہے ، زکوٰۃ ادا ہوجائیگی ، جس قدر چیز محتاج کی مِلك میں گئی بازار کے بھاؤ سے جو قیمت اس کی ہے وہی مجراہوگی بالائی خرچ محسوب نہ ہوں گے ، مثلاآج کل مکّا کا نرخ نَو سیر ہے نَو من مکّا مول لے کر محتاجو ں کو بانٹی تو صرف چالیس روپیہ زکوٰۃ میں ہوں گے ، اُس پر جو پلّہ داری یا باربرداری دی ہے حساب میں نہ لگائی جائےگی ، یا گاؤں سے منگا کر تقسیم کی تو کرایہ گھاٹ چونگی وضع نہ کریں گے ، یا غلّہ پکا کر دیا تو پکوائی کی اُجرت ، لکڑیوں کی قیمت مجرانہ دینگے، اس کی پکی ہوئی چیز کو جو قیمت بازار میں وہی محسوب ہو گی ، لان رکنھا التملیك من فقیر مسلم لو جہ اﷲ تعالی من دون عو

Zakat , زکاة

-: کتاب الزکوة :- کیا آپ جانتے ہیں ؟ قسط ؛ ۶ “ زکوة میں نیت شرط ہے “ اقول: وقد ظہر ھذا من مسائل البشیر والطبال ومھدی البالکورۃ فانہ انما یحمل الناس علی الدفع الیھم افعالھم ھذھ ولو لم یفعلو افلر بمالم ید فع الیھم شیئ ومن ذلك مسئلۃ دفع العیدی بنیۃ الزکوٰۃ الی خدامہ من الرجال و النساء حیث یقع عن الزکوٰۃ کما فی المعراج وغیرہ مع العلم با نہ لو لم یخدموہ لما اعطا ھم و با لجملۃ فھذہ العلائق تکون بواعث للناس علیٰ تخصیصھم بصرف الزکوٰۃ فد وران العطاء معھا وجودا وعد ما لا یعین معنی التعویض وانما المراجع النیۃ فا ذا خلصت اجزت۔ اقول: بشارت دینے والے ، سحر خواں ( سحری کے وقت بیدار کرنے والا ) اور نئے پھلوں کا ہدیہ دنے والے کے مسائل سے بھی یہ بات واضح ہوگئی ہے کیونکہ لوگ ان کو ان کے عمل کی وجہ سے دیتے ہیں ، اگر وُہ یہ کام نہ کریں تو اکثر اوقات ان بیچاروں کو کچھ بھی نہیں دیا جاتا ، اسی طرح یہ مسئلہ کہ خدام(خواہ مرد ہوں یا خواتین )کو نیت زکوٰۃ سے عیدی دینے سے زکوٰۃ ادا ہوجاتی ہے ، جیسا کہ معراج وغیرہ میں ہے ، حالانکہ یہ بات مسلّمہ ہے کہ اگروُہ خدمت نہ کرتے تو انھیں یہ رقم نہ ملتی ، الغرض یہ و

زکاة ۔ zakat

-: کتاب الزکوة :- کیا آپ جانتے ہیں ؟ قسط ؛ ۵ “ زکوة میں نیت شرط ہے “ ،خلاصۃالفتاوٰی و خزانۃالمفتین وغیر ھما معتبرات میں ہے : لودفع علیٰ صبیان اقاربہ دراھم فی ایام العید یعنی عیدی بنیّۃالزکوٰۃ اودفع الیٰ من یبشرہ بقدوم صدیق او یخبرہ بخبر او یھدی الیہ الباکورۃ او الی الطبال یعنی سحر خواں او الی المعلم بنیّۃ الزکوٰۃ جائز۔ ‪ اگر کسی نے ایامِ عید میں اپنے رشتہ داروں کے بچوں کو نیّت زکوٰۃسے عیدی دیدی یا اس شخص کو جس نے اس کے دوست کی آمد کی اطلاع دی یا کوئی خوشی والی خبر دی یا کسی کو عید مبارك پر دی یا سحری کے وقت بیدار کرنے والوں یا استاد کودی تو زکوٰۃ ادا ہوجائیگی (ت ) پھر زکوٰۃ صدقہ ہے اور صدقہ شرطِ فاسد سے فاسد نہیں ہوتا بلکہ وہ شرط ہی فاسد ہوجاتی ہے ، مثلًازکوٰۃ دی اور یہ شرط کرلی کہ یہاں رہے گا تو دُوں گا ورنہ نہ دونگا اس شرط پر دیتا ہوں کہ تو یہ روپیہ فلاں کام میں صرف کرے اس کی مسجد بنادے یا کفنِ اموات میں اٹھادے تو قطعًا زکوٰۃ ادا ہوجائیگی اور یہ شرطیں سب باطل و مہمل ٹہریں گی، فی مصارف الزکوٰۃ من الدارالمختارلا الی بناء مسجد او کفنِ میّت و الحیلۃان یتصدق علی الفقیر ثم یا

زکاة ۔ zakat

-: کتاب الزکوة :- کیا آپ جانتے ہیں ؟ قسط ؛ ۳ “ زکوة میں نیت شرط ہے “ ردالمحتار میں ہے : متعلق بتملیك ای لاجل امتثا ل امرہ تعالٰی ۔ ان کلمات (ﷲ تعالٰی )کا تعلق لفظ تملیك سے ہے یعنی یہ عمل فقط اپنے رب کریم کے حکم کی بجا آوری کے طور پر ہو ۔ پھر اس میں اعتبار صرف نیّت کا ہے اگر چہ زبان سے کچھ اور اظہار کرے ، مثلًا دل میں زکوٰۃ کا ارادہ کیا اور زبان سے ہبہ یاقرض کہہ کردیا صحیح مذہب پر زکوٰۃ ادا ہوجائیگی۔ شامی میں ہے : لااعتبارللتسمیۃفلوسماھا ھبۃاوقرضا تجزیہ فی الاصح۔ نام لینے کا اعتبار نہیں ، اگر کسی نے اس مال کو ہبہ یا قر ض کہہ دیا تب بھی اصح قول کے مطابق زکوٰۃ ادا ہوجائے گی ۔ پھر نیت بھی صرف دینے والے کی ہے لینے والا کچھ سمجھ کرلے اس کا علم اصلًا معتبر نہیں ، فی غمزالعیون العبرۃلنیۃ الدافع لالعلم المدفوع۔ ١ غمزالعیون میں ہے کہ اعتبار دینے والے کی نیّت کا ہے نہ کہ اس کے علم کا جسے زکوٰۃ دی جارہی ہے ۔ ولہٰذااگر عید کے دن اپنے رشتہ داروں کو جنھیں زکوٰۃ دی جاسکتی ہے کچھ روپیہ عیدی کا نام کر کے دیا اور انہوں نے عیدی ہی سمجھ کر لیا اور اس کے دل میں یہ نیّت تھی میں زکوٰۃ

زکاة ۔ zakat

-: کتاب الزکوة :- ( الرسالہ تجلی الشکاة لانارة اسئلة الزکاة زکاة کے مسائل کو واضح کرنے کے لئے چراغ کی چمک ) کیا آپ جانتے ہیں ؟ قسط ؛ ۲ زکوٰ ۃ میں نیّت شرط ہے بے اس کے ادا نہیں ہو تی، فی الاشباہ ماالزکوٰۃ فلایصح ادا ھا الّابالنیۃ (اشباہ میں ہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی نیت کی بغیر درست نہیں ۔ ت) اور نیّت میں اخلاص شرط ہے بغیر اس کے نیّت مہمل ، فی مجمع الانھرالزکوٰۃ عبادۃ فلابدّفیھامن الاخلاص  (مجمع الانہر میں ہے زکوٰۃ عبادت ہے لہٰذا اس میں اخلاص شر ط ہے۔ ت) ور اخلاص کے یہ معنٰی کہ زکوٰۃ صرف بہ نیّتِ زکوٰۃ و ادائے فرض و بجا آوری حکم الٰہی دی جائے ، اس کی ساتھ اور کوئی امر منافیِ زکوٰۃ مقصود نہ ہو۔ تنویر الابصار میں ہے : الزکوٰۃ تملیك جزء مال عینہ الشارع من مسلم فقیرغیرھاشمی ولامولاہ مع قطع المنفعۃ عن المملك من کل وجہ ﷲ تعالٰی۔ زکوٰۃ شارع کی مقرر کردہ حصہ کا فقط رضائے الہٰی کے لئے کسی مسلمان فقیر کو اس طرح مالك بنانا کہ ہر طرح سے مالك نے اس شے سے نفع حاصل نہ کرنا ہو بشرطیکہ وُہ مسلمان ہاشمی نہ ہو اور نہ ہی اس کا مولیٰ ہو ۔ (ت) درمختار میں ہے: ﷲتعالٰی بیان لا شتراط النیّۃ۔ &qu

زکاة - zakat

-: کتاب الزکوة :- کیا آپ جانتے ہیں ؟ قسط ؛ ۱ مسئلہ ؛ جناب عالی فیض بخش فیض رساہ امید گاہ جاویداں بندہ سے ایك مولوی امرت سر سے آئے ہیں وہ کسی بات کا جھگڑا کیا تھا تو بندہ نے کہا کہ نماز کا الله نے بہت بار قرآن شریف میں ذکر کیا ہے اور زکوٰۃ کا بھی بہت بار ذکر کیا ہے مگر روزہ کا ایك بار ذکر کیا ہے ، جنا ب عالی یہ صحیح ہے یا نہیں ؟اور عُشر کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے یا نہیں ؟ الجواب : فی الواقع نماز و زکوٰۃ کی فرضیت و فضیلت و مسائل تینوں قسم کا ذکر قرآن مجیدمیں بہت جگہ ہے یہاں تك کہ مناقب بزازی و بحرالرائق و نھرالفائق و منح الغفار و فتح المعین وغیر ہا میں واقع ہوا کہ علاوہ اُن مواقع کے جن میں نماز و زکوٰۃ کا ذکر جُدا جُداہے دونوں کا ساتھ ساتھ ذکر قرآنِ عظیم میں بیاسی٨٢ جگہ آیا ہے ، مگر علامہ حلبی و علامہ طحطاوی و علامہ شامی ساداتِ کرام محشیانِ درِمختار فرماتے ہیں :صحیح یہ ہے کہ اُن کا ساتھ ساتھ بتیس ٣٢ جگہ فرمایا ہے ۔ علامہ حلبی کے استاد نے وُہ سب مواقع گنا دئیے درمختارمیں ہے : قرنھا بالصلٰوۃ فی اثنین و ثمانین موضعا‪ ‬ (بیاسی ٨٢مقامات پر زکوٰۃ کو نمازکے ساتھ ذکر کیا گیا ہے

قبورمسلمین کی توہین کی بِنا پر وہابیوں کی سرکوبی

(  قبورمسلمین   کی   توہین   کی   بِنا   پر   وہابیوں   کی   سرکوبی ) کیا   آپ   جانتے   ہیں     ؟ قسط  :  ۹ “  نامناسب   افعال   کرنے   سے   اموات   مسلمین   کو   ایذا   ہوتی   ہے  “ ابن   ابی   شیبہ   اپنی   مصنف   میں   سیدنا   عبداﷲ   ابن   مسعود   رضی   اﷲ   تعالی   عنہ   سے   راوی : اذی   المومن   فی   موتہ   کا   ذاہ   فی   حیاتہ   ۔ مسلمان   کو   بعد   موت   تکلیف   دینی   ایسی   ہی   ہے   جیسے   زندگی   میں   اسے   تکلیف پہنچائی۔ اور   اظہر   من   الشمس   ہے   کہ   قبور   کو   کھود   کر   ان   پر   رہنے   کو   مکان   بنایا   تو   اس   میں   یہ   سب   امور   موجود   ہیں،   جس سے   یقینا   اہل   قبور   کی   توہین   ہوتی   ہے   اور   ان   کو   ایذا   دینا   ہے۔   جو   ہر   گز   ہمارے   حنفی   مذہب   میں   جائز   نہیں ہے۔   اگر   کوئی   معترض   کہے   کہ   شرح   کنز   میں   علامہ   زیلعی   لکھتے   ہیں  : ولوبلی   المیّت   وصارتراباجاز   دفن   غیرہ فی   قبرہ   وزرعہ   والناء   علیہ     ۔ اگر   میّت   پرانی   ہوجائے   اور   مٹی   میں   مل   جائے  

قبورمسلمین کی توہین کی بِنا پر وہابیوں کی سرکوبی

(  قبورمسلمین   کی   توہین   کی   بِنا   پر   وہابیوں   کی   سرکوبی ) کیا   آپ   جانتے   ہیں     ؟ قسط  :  ۸ “  نامناسب   افعال   کرنے   سے   اموات   مسلمین   کو   ایذا   ہوتی   ہے  “ اسی   واسطے   ہمارے   فقہائے   کرام   احناف   علیہم   الرحمۃ   فرماتے   ہیں   کہ :" قبر   پر   رہنے   کو   مکان   بنانا،   یا   قبر   پر   بیٹھنا، یا   سونا،   یا   اس   پر   یا   اس   کے   نزدیك   بَول   وبراز   کرنا   یہ   سب   اموراشد   مکروہ   قریب   بحرام   ہیں۔ " فتاوٰی   علمگیری میں   ہے  : ویکرہ   ان   یبنی   علی   القبر   اویقعد   اوینام   علیہ   اویطاء   علیہ   او   یقضی   حاجۃ الانسان   من   بول   اوغائط   ۔ قبر   پر   عمارت   بنانا،   بیٹھنا،   سونا   ،   روندنا،   بول   وبراز کرنا   مکروہ   ہے   ۔ علاّمہ   شامی   اس   کی   دلیل   میں   حاشیہ   درمختار   میں   فرماتے   ہیں : لان   المیّت   یتأذی   بما   یتاذی   بہ   الحیّ ۔   یعنی   اس   لیے   کہ   جس   سے   زندو   ں   کو   اذیت   ہوتی   ہے   اس   سے   مردے   بھی   ایذا پاتے   ہیں۔ بلکہ   دیلمی   نے

شب برات .shab e Barat .

مسئلہ :  (١) نفل کا سوائے تراویح ونماز کسوف وخسوف بجماعت منسوخ ہونا تومعلوم ہے لیکن بعض مشائخ کے یہاں جوباعتبار کسی کسی کتاب کے بعد نمازیں نفل کی مثلًا صلٰوۃ قضائے عمر(٤نفل قبل آخری جمعہ کے) اور نفل شب برات بجماعت ہوتے ہیں ان کی اصل ہے، جوازکس بناپر ہے اور ممانعت کیوں ہے، جن فتاوٰی کی روسے جوازنکالاہے وہ کہاں تك معتبرہے؟  (٢) نفل یوم عاشورہ ہم کوپڑھنا مناسب ہے یانہیں؟ الجواب: (١) ہمارے ائمہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم کے نزدیك نوافل کی جماعت بتداعی مکروہ ہے۔ اسی حکم میں  نماز خسوف بھی داخل کہ وہ بھی تنہاپڑھی جائے اگرچہ امام جمعہ حاضرہو   کما فی الشامی عن اسمٰعیل عن ا لبرجندی   (جیسے کہ شامی نے اسمٰعیل سے اور انہوں نے برجندی سے نقل کیاہے۔ت)حلیہ میں ہے :  اما الجماعۃ فی صلٰوۃ الخسوف فظاھرکلام الجم الغفیر من اھل المذھب کراھتھا رہا صلٰوۃ خسوف کی جماعت کے بارے میں حکم تو اہل مذہب کے جم غفیر کے کلام سے یہی ظاہر ہے کہ یہ مکروہ ہے الخ(ت) صرف تراویح وصلٰوۃ الکسوف وصلٰوۃ الاستسقاء مستثنٰی ہیں   وذلك بوفاق ائمتنا علی الاصح فالخلٰف فی الاخیر فی الاستنان دون الجواز   کما ص

قبورمسلمین کی توہین کی بِنا پر وہابیوں کی سرکوبی

(  قبورمسلمین   کی   توہین   کی   بِنا   پر   وہابیوں   کی   سرکوبی ) کیا   آپ   جانتے   ہیں     ؟ قسط  :  ۲ اوریہی   علامہ   مذکور   تیسرے   مقام   میں   لکھتے   ہیں : قال   بعضھم   ولوکان   المبنی   علیہ   مشھورا   بالعلم والصلاح   اوکان   صحا   بیا   وکان   المبنی   علیہ   قبّۃ   وکان البناء   علٰی   قدر   قبرہ   فقط   ینبغی   ان   لا   یھدم   لحرمۃ   نبشہ وان   اندرس   اذا   علمت   ھذا   فھذ   البناء   علٰی   قبور ھٰؤلاء   الشھداء   من   الصحابۃ   رضی   اﷲ   تعالٰی   عنہم   لا یخلو   اما   ان   یکون   واجبًا   اوجائزًا   بغیر   کراہۃ   وعلٰی   کل فلا   یقدم   علی   الھدم   الاّرجل   مبتدی   ضال   لاستلزامہ انتھاك   حرمۃ   اصحاب   رسول   اﷲ   صلی   اﷲ   تعالٰی   علیہ وسلم   الواجب   علٰی   کل   مسلمٍ   محبتھم   ومن   محبتھم وجوب   توقیرھم   وای   توقیر   ھم   عند   من   ھدم   قبور ھم   حتی   بدت   ابدانھم   واکفانھم   کما   ذکر   بعض   علماء نجد   فی   سوال   ارسلہ   الی   انتہی   مختصرا   بعض   علماء   نے   فرمایا   کہ   صاحب   قبّہ   اگر   کوئی   مشہور   عالم،   م