سیرت امیرالمومنین عمر بن عبد العزیز

🌙عمر بن عبد العزیز🌙

عمر بن عبد العزیز بن مروان بن حکم (کنیت: ابو حفص) خلافت بنو امیہ کے آٹھویں خلیفہ تھے اور سلیمان بن عبدالملک کے بعد مسند خلافت پر بیٹھے۔ 
انہیں ان کی نیک سیرتی کے باعث چھٹا خلیفہ راشد بھی کہا جاتا ہے جبکہ آپ خلیفہ صالح کے نام سے بھی مشہور ہیں۔

ابتدائی زندگی
آپ نے 61ھ میں مدینہ منورہ میں آنکھ کھولی۔ نام عمر بن عبد العزیز بن مروان اور ابو حفص کنیت تھی۔ آپ کی والدہ کا نام ام عاصم تھا جو عاصم بن الخطاب کی صاحبزادی تھیں گویا حضرت عمر فاروق کی پوتی ہوئیں اس لحاظ سے آپ کی رگوں میں فاروقی خون تھا۔ 61ھ/681ء کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مسلسل 21 برس مصر کے گورنر رہے۔ دولت و ثروت کی فراوانی تھی لہذا نازو نعم کے ماحول میں آپ کی پرورش ہوئی۔ جس کا اثر خلیفہ بننے تک قائم رہا۔ وہ ایک نفیس طبع خوش پوش مگر صالح نوجوان تھے۔ عہد شباب میں اچھے سے اچھا لباس پہنتے۔ دن میں کئی پوشاک تبدیل کرتے، خوشبو کو بے حد پسند کرتے، جس راہ سے گزر جاتے فضا مہک جاتی۔ ان ظاہری علامات کو دیکھ کر اس امر کی پیشگوئی نہیں کی جاسکتی تھی جو خلیفہ بننے کے بعد ظاہر ہوئے لیکن چونکہ طبیعت بچپن ہی سے پاکیزگی اور زہد و تقویٰ کی طرف راغب تھی اس لیے یہ ظاہری اسباب و نشاط ان کو قطعاً متاثر نہ کر سکے۔ ان کا دل ہمیشہ اللہ تعالٰی کی عظمت اور خوف سے لبریز رہا۔ پاکیزگی نفس اور تقدس آپ کی شخصیت کا ایک نہایت ہی اہم اور خصوصی وصف تھا۔

آپ کے والد نے آپ کی تعلیم و تربیت کی طرف خصوصی توجہ دی۔ مشہور عالم اور محدث صالح بن کیسان کو آپ کا اتالیق مقرر کیا۔ اس دور کے دیگر اہل علم مثلاً حضرت انس بن مالک، سائب بن یزید اور یوسف بن عبد اللہ جیسے جلیل القدر صحابہ اور تابعین کے حلقہ ہائے درس میں شریک ہوئے۔ بچپن ہی میں قرآن کریم حفظ کر لیا اور قرآن و حدیث اور فقہ کی تعلیم مکمل کرکے ایک خاص مقام حاصل کیا۔ اسی تعلیم و تربیت کا نتیجہ تھا کہ آپ کی شخصیت ان تمام برائیوں سے پاک تھی جن میں بیشتر بنوامیہ مبتلا تھے۔ نگرانی کا یہ عالم تھا کہ ایک بار عمر نماز میں شریک نہ ہو سکے استاد نے پوچھا تو آپ نے بتایا کہ میں اس وقت بالوں کو کنگھی کر رہا تھا استاد کو یہ جواب پسند نہ آیا اور فوراً والد والیٔ مصر سے شکایت لکھ دی وہاں سے ایک خاص آدمی انہیں سزا دینے کے لیے مدینہ آیا اور ان کے بال منڈا دیے اور ان کے بعد ان سے بات چیت کی۔

آپ طبعاً صالح اور نیک تھے اس کی نشان دہی ان کے استاد صالح بن کیسان، عبد العزیز کے ساتھ ایک ملاقات کے دوران ان الفاظ میں کر چکے تھے۔
” مجھے ایسے کسی آدمی کا علم نہیں ، جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اس لڑکے سے زیادہ نقش ہو “
یہی وجہ تھی کہ خلافت سے پہلے جب کئی دیگر اعلیٰ عہدوں پر آپ کو فائز کیا گیا تو انہوں نے اپنی اس نیک نفسی اور خدا خوفی کی روش کو قائم رکھا۔ عبد الملک نے ہمیشہ ان کو دیگر اموی شہزادوں سے زیادہ پیار و محبت اور قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھا اور اپنے بھائی عبد العزیز کی وفات کے بعد عبد الملک نے اپنی چہیتی بیٹی فاطمہ کی شادی عمر سے کر دی اس وجہ سے بنو امیہ میں عمر کے وقار میں مزید اضافہ ہوا۔

بطور گورنر مدینہ

707ء میں ولید بن عبد الملک کے کہنے پر آپ نے مدینہ کی گورنری اس شرط پر قبول کی کہ وہ اپنے پیش رو حکمرانوں کی طرح لوگوں پر ظلم اور زیادتی نہ کریں گے۔ ولید نے بھی اس شرط کو قبول کیا اور کہا کہ آپ حق پر عمل کیجیے گو ہم کو ایک درہم بھی وصول نہ ہو۔ جب مدینہ پہنچے تو اکابر فقہا کو جمع کرکے کہا کہ:

” میں نے آپ لوگوں کو ایک ایسے کام کے لیے طلب کیا ہے جس پر آپ لوگوں کو ثواب ملے گا اور آپ آپ حامی حق دار قرار پائیں گے۔ میں آپ لوگوں کی رائے اور مشورہ کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتا پس آپ لوگ کسی کو ظلم کرتے ہوئے دیکھیں یا آپ لوگوں میں سے کسی کو میرے عامل کے ظلم کا حال معلوم ہو تو میں خدا کی قسم دلا کر کہتا ہوں کہ وہ مجھے تک اس معاملہ کو ضرور پہنچائے “
تمام اخلاقی خوبیوں کے باوجود طبیعت ابھی تک شاہانہ وقار اور اطوار سے برقرار رکھے ہوئے تھی۔ چنانچہ جب مدینہ آئے تو آپ کا ذاتی سامان 30 اونٹوں پر لد کر آیا۔ 707ء سے 713ء تک مدینہ کے گورنر رہے اس دوران آپ نے عدل و انصاف سے حکومت کی اور اہل حجاز کے دل جیت لیے۔ مسجد نبوی کی تعمیر آپ کے زمانہ گورنری کا شاندار کارنامہ ہے۔ 713ء میں ولید نے انہیں مدینہ کی گورنری سے علیحدا کر دیا۔ سلیمان آپ کی شخصیت سے بے حد متاثر تھا چنانچہ اس نے وفات سے پہلے آپ کو خلافت کے لیے نامزد کر دیا۔

بارِ خلافت
718ء میں وابق کے مقام پر ( جو فوج کی اجتماع گاہ تھی ) سلیمان بن عبد الملک بیمار ہوا جب زندگی کی کوئی امید باقی نہ رہی تو اپنے وزیر رجاء بن حیوہ کو بلا کر اپنے جانشین کے بارے میں رائے لی۔ سلیمان نے رجاء کے مشورہ کے مطابق عمر بن عبد العزیز اور یزید بن عبد الملک کو علی الترتیب اپنا جانشین مقرر کرکے ایک وصیت نامہ لکھا اور مہر بند کرکے کعب بن جابر افسر پولیس کے حوالہ کیا کہ وہ اس وصیت نامہ پر بنو امیہ سے بیعت لے چنانچہ سلیمان کی زندگی ہی میں رجاء بن حیوۃ نے اس پر بیعت لی لیکن چونکہ سلیمان کو بنو امیہ کی طرف سے خطرہ لاحق تھا س لیے مرنے پہلے رجاء کو دوبارہ بیعت کی تاکید کی۔ اس دوران خیلفہ کی موت واقع ہو گئی رجاء کو خدشہ تکھا کہ بنو امیہ آسانی سے عمر بن عبد العزیز کی خلافت قبول نہ کریں گے اس لیے کچھ دیر کے لیے سلیمان کی موت کو چھپائے رکھا تاکہ آنکہ وابق کی جامع مسجد میں افراد بنو امیہ کو جمع کرکے دوبارہ بیعت لے لی اس کے بعد وصیت نامہ کھول کر پڑھا گیا۔ جب اعلان خلافت ہو رہا تھا تو اس وقت ’’انا اللہ ‘‘ کی دو آوازیں بیک وقت سنی گئیں۔ ایک ہشام کے منہ سے جسے حکومت کھو جانے کا غم تھا، دوسرے عمر بن عبد العزیز جنہیں حکومت مل جانے کا افسوس تھا۔ ہشام نے بیعت سے انکار کیا تو رجاء نے اسے ڈانٹ دیا اور کہا اٹھو بیعت کرو وگرنہ تمہارا سر قلم کر دوں گا۔ یہ کہہ کر عمر بن عبد العزیز کو پکڑ کر منبر پر کھڑا کر دیا۔

اس کے بعد عمر بن عبد العزیز اس عظیم ذمہ داری کے اٹھانے سے لرزاں تھے۔ خلیفہ مقرر ہونے کے بعد آپ پر گھبراہٹ کا عالم طاری تھا آپ خود اس کے خواہش مند نہ تھے۔ ان کے نزدیک خلافت موروثی نہیں بلکہ ایک جمہوری ادارہ تھی لہذا سلیمان کے دفن کرنے کے بعد مسجد میں آئے، منبر پر چڑھے اور لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے لوگو ! میری خواہش اور عام مسلمانوں کی رائے لیے بغیر مجھے خلافت کی ذمہ داری میں مبتلا کیا گیا ہے اس لیے میری بیعت کا جو طوق تمہاری گردن میں ہے خود اسے اتارے دیتا ہوں، تم جسے چاہو اپنا خلیفہ بنا لو “
یہ تقریر سن کر سب نے بلند آواز سے کہا ہم نے آپ کو اپنے لیے پسند کیا اور آپ سے راضی ہو گئے اس کے بعد آپ نے خدا اور اس کے رسول کے احکامات کے منشا کے بیان کرنے کے لیے لوگوں سے کہا:

” اے لوگو! جس نے خدا کی اطاعت کی ،اس کی اطاعت انسان پر واجب ہے جس نے خدا کی نافرمانی کی، اس کی نافرمانی لوگوں پر ضروری نہیں۔میں اگر اللہ تعالٰیٰ کی اطاعت کروں تو میری اطاعت ضروری جانو اور اگر میں خدا کی نافرمانی کروں تو میری بات نہ مانو “
لوگوں نے ایک بار پھر آپ کی تائید کی اور اس طرح بیعت عامہ حاصل کرنے کے بعد آپ نے خلیفہ اسلام کی حیثیت سے اپنے کام کا آغاز کیا۔ خلیفہ مقرر ہونے کے بعد جب آپ عوام کے سامنے آئے تو لوگ ان کے احترام میں کھڑے ہو گئے۔ عمر نے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

” اے لوگو! اگر تم ہمارے اعزاز میں کھڑے ہو گئے تو ہم بھی کھڑے ہو جایا کریں گے۔ اگر تم بیٹھو گے تو ہم بیٹھیں گے۔ لوگ خدا کے حضور کھڑے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالٰیٰ نے کچھ باتیں انسانوں پر فرض کیں اور کچھ سنن قرار دیں۔ جنہوں نے ان کی پابندی کی وہ کامیاب ہوئے اور جس نے ان کا لحاظ نہ رکھا وہ تباہ ہوا “
اس کے بعد فرمایا:

” تم میں سے جو کوئی میرے پاس آئے وہ ان باتوں کا خیال رکھے
مجھ تک ایسی حاجت پہنچائے جس کا مجھے علم نہ ہو۔

مجھے ایسے عدل و انصاف کی طرف توجہ دلائے جو مجھ سے نہ ہو سکا ہو۔

سچائی میں میرا ساتھ دے۔

مسلمانوں کی امانت کا نگہبان اور محافظ ہو۔

میرے پاس کسی کی غیبت نہ کرے


احساس فرض اور طرز زندگی میں تبدیلی
خلافت کا بار گراں اٹھاتے ہی فرض کی تکمیل کے احساس نے آپ کی زندگی بالکل بدل کر رکھ دی۔ وہی عمر جو نفاست پسندی اور خوش لباسی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے، جو خوشبو کے دلدادہ تھے، جن کی چال امیرانہ آن بان کی آئینہ دار تھی، جن لباس فاخرا تھا اب سراپا عجز و نیاز تھے۔ سلیمان کی تجہیز و تکفین کے بعد پلٹے تو سواری کے لیے اعلٰی ترین گھوڑے پیش کیے گئے مگر حضرت عمر بن عبد العزیز نے ان پر سوار ہونے سے انکار کر دیا اور کہا ’’میرے لیے میر خچر کافی ہے‘‘ اور انہیں واپس بیت المال میں داخل کرنے کا حکم دیا۔ جب افسر پولیس نیزہ لے کر آگے آگے روانہ ہوا تو اسے ہٹا دیا اور کہا کہ ’’ میں بھی تمام مسلمانوں کی طرح ایک مسلمان ہوں‘‘ پھر جب سلیمان کے اثاثہ کو ورثا میں تقسیم کرنے کی تجویز کی تو آپ نے سارے سامان کو بیت المال میں داخل کرنے کا حکم صادر کر دیا۔ واپسی کے وقت دستور کے مطابق خیال تھا کہ وہ قصر خلافت میں ضرور داخل ہوں گے لیکن عمر اس کی بجائے یہ کہہ کر کہ ’’ میرے لیے میرا خیمہ کافی ہے‘‘ اندر داخل ہو گئے۔ آپ کی ملازمہ نے چہرہ بشرہ دیکھ کر اندازہ لگایا کہ آپ پریشان ہیں۔ پوچھا تو کہا:

” یہ تشویشناک ناک بات ہی تو ہے کہ مشرق سے مغرب میں امت محمدیہ کا کوئی فرد ایسا نہیں ہے جس کا مجھ پر حق نہ ہو اور بغیر مطالبہ و اطلاع اس کے ادا کرنا مجھ پر فرض نہ ہو “
اس کے بعد مسجد جاکر وہ خطبہ دیا جس کا ذکر اس سے بیشتر کیا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے باغِ فدک اھلِ بیت کوان کا حق سمجھ کر واپس کر دیا جس پر اس سے قبل اختلاف تھا۔ اگرچہ فدک اگلے خلیفہ نے بعد میں دوبارہ ان سے واپس لے لیا گیا۔
ہر وقت امت مسلمہ کے حقوق کی نگہداشت اور اللہ تعالٰی کے احکامات کی تعمیل اور نفاذ کی فکر دامن گیر رہتی جس کی وجہ سے ہمیشہ چہرے پر پریشانی اور ملال کے آثار دکھائی دیتے۔ اپنی بیوی فاطمہ کو حکم دیا کہ تمام زروجواہر بیت المال میں جمع کرا دو ورنہ مجھ سے الگ ہو جاؤ۔ وفا شعار اور نیک بیوی نے تعمیل کی۔ گھر کے کام کاج کے لیے کوئی ملازمہ مقرر نہ تھی تمام کام ان کی بیوی خود کرتیں۔ الغرض آپ کی زندگی درویشی اور فقر و استغنا کا نمونہ کر رہ گئی۔ آپ کی تمام تر مساعی اور کوششیں اس امر پر لگی ہوئی تھیں کہ وہ ایک بار پھر سنت فاروقی اور عہد فاروقی کی یاد تازہ کر دیں۔ آپ اس پاکیزہ زندگی اور کا رہائے نمایاں کی بدولت ہی پانچویں خلیفہ راشد قرار پائے۔ آپ نے اہل بیت کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ کیا۔ ان کی ضبط کی ہوئی جائیدایں ان کو واپس کر دی گئیں۔ حضرت علی پر جمع خطبہ کے دوران لعن طعن کا سلسلہ ختم کر دیا۔ اور ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کا خاتمہ کر دیا۔ احیائے شریعت کے لیے کام کیا۔ بیت المال کو خلیفہ کی بجائے عوام کی ملکیت قرار دیا۔ اس میں سے تحفے تحائف اور انعامات دینے کا طریقہ موقوف کر دیا۔ ذمیوں سے حسن سلوک کی روایت اختیار کی۔ اس کے علاوہ معاشی اور سیاسی نظام میں اور بھی اصلاحات کیں۔

اقدامات
آپ نے بارِ خلافت سنبھالنے کے بعد منادی کروادی کہ لوگ اپنے مال و جائداد کے بارے میں اپنی شکایتیں پیش کر دیں جس کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ اسے زبردستی ہتھیالیا گیا ہے۔

یہ کام بہت خطرناک اور نازک تھا، خود آپ کے پاس بڑی موروثی جاگیر تھی۔ بعض افراد نے آکر آپ سے کہا کہ اگر آپ نے اپنی جاگیر واپس کردی تو اولاد کی کفالت کیسے کریں گے؟ آپ نے فرمایا ان کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔

آپ نے اعلان عام کروایا کہ اموی خلفاء نے جس کے مال، جاگیر یا جائداد پر ناجائز قبضہ جمالیا ہے وہ ان کے حقداروں کو واپس کی جا رہی ہیں۔ اس اعلان کے بعد جاگیروں کی دستاویزات منگوائیں اور آپ کے ایک ماتحت ان دستاویزات کو نکال کر پڑھتے جاتے تھے اور حضرت عمر بن عبد العزیز اسے پھاڑ پھاڑ کر پھینکتے جاتے تھے۔ آپ نے اپنی اور اہل خاندان کی ایک ایک جاگیر ان کے حقداروں کو واپس کردی اور اس میں کسی کے ساتھ کسی قسم کی رعایت سے کام نہ لیا۔

خلیفہ بننے سے قبل حضرت عمر بن عبد العزیز کی نفاست پسندی کا یہ حال تھا کہ نہایت بیش قیمت لباس زیب تن کرتے تھے اور تھوڑی دیر میں اسے اتار کر دوسرا قیمتی لباس پہنتے تھے۔ وہ اپنے زمانے کے سب سے خوش لباس اور جامہ زیب شخص مانے جاتے تھے لیکن عہدۂ خلافت سنبھالتے ہی ان کی زندگی میں بڑا تغیر آگیا۔ انہوں نے گھر کا ایک ایک نگینہ بیت المال میں داخل کروادیا، خاندان کے تمام وظائف بند کر دیے اور اپنی تمام سواریاں فروخت کرکے رقم بیت المال میں داخل کروادی۔ انہوں نے خلفاء کے ساتھ نقیبوں اور علمبرداروں کے چلنے کا سلسلہ بھی بند کروادیا۔

مسلمانوں کے دونوں اہم فرقے اہل سنت اور اہل تشیع آپ کی بے حد عزت کرتے ہیں۔۔

دورِ خلافت کی خصوصیت
بیان کیا جاتا ہے کہ خلافت سے پہلے عمر بن عبد العزیز کے سامنے تین ہزار درہم کا لباس پیش کیا گیا تو آپ کو پسند آیا۔ پھر دوران میں خلافت آپ کے خریدنے کے لیے کپڑے بھیجے گئے تو آپ نے تین درہم والا کپڑا خریدا اور فرمایا: کاش کوئی اس سے بھی موٹا اور کھردرا (کپڑا) ہوتا کیونکہ یہ بھی پتلا ہے! اے بھائی غور کر، کہاں وہ (تین ہزار) اور کہاں یہ (تین درہم)، اللہ آپ سے راضی ہو، آپ جیسے لوگوں کو ہی اللہ کے بندوں کے امور سنبھالنے چاہئیں۔

بنی امیہ کی حکومت کے 92 سالہ دور میں حضرت عمر بن عبد العزیز کی خلافت کے ڈھائی سال تاریکی میں روشنی کی حیثیت رکھتے ہیں۔

آپ کا زمانۂ خلافت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرح بہت ہی مختصر تھا۔ لیکن جس طرح عہد صدیقی بہت اہم زمانہ تھا اسی طرح حضرت عمر بن عبد العزیز کی خلافت کا زمانہ بھی عالم اسلام کے لیے قیمتی زمانہ تھا۔ حضرت عمر بن عبد العزیز کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ وہ خلافت اسلامیہ کو خلافت راشدہ کے نمونے پر قائم کرکے عہد صدیقی اورعہد فاروقی کو دنیا میں پھر واپس لے آئے تھے۔

منصب خلافت سنبھالنے کے بعد مشورہ کرنا
جب عمر بن عبد العزیز نے منصبِ خلافت سنبھالا تھا تو انہوں نے سالم بن عبد اللہ، محمد بن کعب القرظی، رجا بن حیوة کو بلوایا اور کہا: مجھے اس آزمائش میں ڈال دیا گیا ہے؛ اب مجھے مشورہ دو۔ انہوں نے تو خلافت کو آزمائش جانا، جبکہ آپ اور آپ کے ساتھی اِسے نعمت تصور کرتے ہیں۔ اس وقت سالم بن عبد اللہ نے انہیں کہا تھا: اگر آپ اللہ کے عذاب سے بچنا چاہتے ہیں تو دنیا میں روزہ رکھ لیں اور موت سے ہی اسے افطار کریں۔ محمد بن کعب نے انہیں فرمایا: اگر آپ اللہ کے عذاب سے بچنا چاہتے ہیں؛ تو مسلمان بزرگوں کو اپنا باپ سمجھیں، اپنے جتنوں کو اپنا بھائی سمجھیں اور چھوٹوں کو اپنا بیٹا جانیں؛ اپنے باپ کا احترام کریں، اپنے بھائی کی عزت کریں اور اپنے بیٹے سے شفقت سے پیش آئیں۔ رجا بن حیوة بولے: اگر آپ کل عذاب الہی سے بچنا چاہتے ہیں تو مسلمانوں کے لیے بھی وہی پسند کریں جو اپنے لیے پسند کرتے ہیں اور ان کے لیے بھی وہی ناپسند کریں جو اپنے لیے ناپسند کرتے ہیں، اس کے بعد چاہے آپ کی موت آ جائے۔
منصب خلافت سنبھالنے کے بعد کے واقعات
مجھے بتایا گیا کہ جب عمر بن عبد العزیز نے خلافت کی باگ ڈور سنبھالی تو ایک بڑے شہزادے کی جاگیر واپس لے لی، جو اسے سلیمان بن عبد الملک اور ولید بن عبد الملک نے دی تھی۔ پھر جب عمر بن عبد العزیز کا انتقال ہوا اور یزید بن عبد الملک نے خلافت سنبھالی تو وہ شہزادہ ان کے پاس گیا اور بولا: آپ کے بھائی سلیمان امیر المومنین اور ولید نے مجھے جاگیر عنایت کی تھی جو مجھ سے امیر الومنین عمر بن عبد العزیز نے چھین لی، میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے وہ واپس لوٹا دیں۔ وہ بولے: میں ایسا نہیں کرنے والا۔ پوچھا: کیوں؟ فرمایا: کیونکہ حق وہی ہے جو عمر بن عبد العزیز نے کیا۔ پوچھا: وہ کیسے؟ فرمایا: کیونکہ میرے بھائیوں نے تجھ پر احسان کیا لیکن جب تو نے ان کا ذکر کیا تو ان کے ساتھ نہ لگایا، جبکہ عمر بن عبد العزیز نے تیرے ساتھ برا کیا لیکن جب تو نے ان کا ذکر کیا تو ساتھ لگایا۔ اس سے مجھے پتا چلا کہ عمر نے تیرے معاملے میں اپنی خواہش کے مقابلے میں اللہ کو ترجیح دی اور بیشک سلیمان بن عبد الملک اور ولید نے اللہ کے حق پر اپنی خواہش کو ترجیح دی؛ اللہ کی قسم میں تو تجھے یہ نہیں دے سکتا۔ یہ واقعہ حکمرانوں کے الفاظ پر غور کرنے کا بہترین واقعہ بیان کیا گیا ہے۔

سرکاری ملازم کا شکوہ اور آپ کا جواب
عمر بن عبد العزیز کے ماتحت ایک سرکاری ملازم نے ان سے شکوہ کیا تو آپ نے اُسے لکھ بھیجا: بھائی! میں تجھے دوزخیوں کا دوزخ میں ہمیشہ رہنا اور طویل جاگنا یاد دلاتا ہوں، اللہ کو چھوڑ کر کسی اور راستے کی طرف مت نکل پڑیں کہ وہ تیری انتہا ہو اور کوئی امید بھی نہ رہے۔ جب اُس نے وہ خط پڑھا تو سفر کرتا کراتا سیدھا آپ کے قدموں میں آ پڑا۔ آپ بولے: تو یہاں کیوں آ گیا؟ وہ بولا: آپ کے خط نے تو میرا دل دہلا دیا؛ اب میں اللہ سے ملنے تک عہدہ قبول نہیں کروں گا۔

شہادت
رجب 101ھ بمطابق جنوری 720ء میں آپ بیمار پڑ گئے۔ کہا جاتا ہے کہ بنو امیہ نے آپ کے ایک خادم کو ایک ہزار اشرفیاں دے کر آپ کو زہر دلوادیا تھا۔ آپ کو علالت کے دوران ہی اس کا علم ہو گیا تھا لیکن آپ نے غلام سے کوئی انتقام نہ لیا بلکہ اشرفیاں اس سے لے کر بیت المال میں داخل کروا دیں اور غلام کو آزاد کر دیا۔ زہر دینے کی وجوہات میں ایک تو یہ بات شامل تھی کہ آپ خلفائے راشدین کی مانند خلافت کے امور چلاتے تھے۔ دوسرے یہ کہ ان کی وجہ سے بنو امیہ اپنی مخصوص مالی لوٹ مار نہیں کر سکے۔ کیونکہ حضرت عمر بن عبد العزیز بیت المال کو مسلمانوں کی امانت سمجھتے تھے۔

طبیعت بہت خراب ہو گئی تو آپ نے اپنے بعد ہونے والے خلیفہ یزید بن عبد الملک کے نام وصیت لکھوائی جس میں انہیں تقویٰ کی تلقین کی۔ 25 رجب 101ھ بمطابق 10 فروری 720ء کو آپ نے اپنا سفر حیات مکمل کر لیا۔ اس وقت آپ کی عمر صرف 39 سال تھی۔ آپ کو حلب کے قریب دیر سمعان میں سپرد خاک کیا گیا جو شام میں ہے۔۔

کارنامے
آپ نے اپنے مختصر دور خلافت میں رعایا کی فلاح و بہبود کے لیے بھی وسیع پیمانے پر اقدامات کیے۔ خلیفہ بننے سے قبل نومسلموں سے بھی جزیہ وصول کیا جاتا تھا، آپ نے اسے ظلم قرار دیتے ہوئے اس کی ممانعت کردی۔ اس پر صرف مصر میں اتنے لوگ مسلمان ہوئے کہ جزیہ کی آمدنی گھٹ گئی اور وہاں کے حاکم سے آپ سے شکایت کی کہ آمدنی کم ہونے کی وجہ سے قرض لے کر مسلمانوں کے وظیفے ادا کرنے پڑ رہے ہیں جس پر آپ نے لکھا کہ "جزیہ بہرحال ختم کردو، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہادی بنا کر بھیجے گئے تھے، محصل بنا کر نہیں"۔

آپ نے بیت المال کی حفاظت کا نہایت سخت انتظام کیا، دفتری اخراجات میں تخفیف کردی۔ ملک کے تمام معذورین اور شیر خوار بچوں کے لیے وظیفے مقرر کیے۔ نو مسلموں پر جزیہ معاف کردینے سے آمدنی گھٹنے کے باوجود سرکاری خزانے سے حاجت مندوں کے وظائف مقرر کیے لیکن ناجائز آمدنیوں کی روک تھام، ظلم کے سدباب اور مال کی دیانتدارانہ تقسیم کے نتیجے میں صرف ایک سال بعد یہ نوبت آگئی کہ لوگ صدقہ لے کر آتے تھے اور صدقہ لینے والے نہ ملتے تھے۔

آپ نے جگہ جگہ سرائیں بنوائیں جن میں مسافروں کی ایک دن اور بیمار مسافروں کی دو دن میزبانی کا حکم دیا، شراب کی دکانوں کو بند کروادیا اور حکم دیا کہ کوئی ذمی مسلمانوں کے شہروں میں شراب نہ لانے پائے۔

آپ نے اپنے دور میں علم کی اشاعت پر خصوصی توجہ دی۔ آپ نے تدریس و اشاعت میں مشغول علمائے کرام کے لیے بیت المال سے بھاری وظیفے مقرر کرکے ان کو فکرِ معاش سے آزاد کر دیا۔ آپ کا سب سے بڑا تعلیمی کارنامہ احادیثِ نبوی کی حفاظت و اشاعت ہے۔

آپ کے دور میں بڑے پیمانے پر تبلیغ اسلام کے باعث ہزاروں لوگ مسلمان ہوئے جن میں سندھ کے راجہ داہر کا بیٹا جے سنگھ بھی شامل تھا۔

چھٹے خلیفہ راشد
عنان حکومت جب بنو امیہ کے ہاتھ میں آئی تو انہوں نے خلافت کو موروثی بنا کر ملوکیت میں تبدیل کر دیا حالانکہ اسلامی نظریات کے مطابق خلافت جمہوری ادارہ تھی۔ خلافت راشدہ کا نظام عوام کی رائے اور مشورہ اور اللہ تعالٰی کی حاکمیت کے اصول پر قائم تھا۔ ان میں نہ کوئی بادشاہ تھا اور نہ غلام۔ خلیفہ اپنے اعمال کے لیے خدا اورخلق دونوں کے سامنے جواب دہ تھا۔ عمر بن عبد العزیز کا سب سے بڑا کارنامہ یہی ہے کہ آپ نے زمانے کی باگ پھیر کر اس کا ناتا ایک بار پھر خلافت راشدہ سے جوڑدیا۔ خلیفہ مقرر ہونے کے بعد آپ نے عوام کے سامنے جاکر اپنی دست برداری کا اعلان کیا۔ اور جب تک عوام نے ان کو خلیفہ نہ چنا آپ اس ذمہ داری کو اٹھانے سے انکاری رہے۔ آپ نے ہر معاملہ میں حضرت عمر فاروق کی مثال کو سامنے رکھا اور اپنے فکروعمل سے ایک بار پھر عہد فاروقی کی یاد تازہ کردی۔ آپ سے پہلے مختلف حکمران اسلام کے دیے ہوئے نظام مذہب و اخلاق اور سیاست و حکومت میں طرح طرح کی رنگ آمیزیاں کر رہے تھے۔ آپ نے ان سب خرابیوں سے حکومت و معاشرہ کو پاک کرنے کی کوششیں کیں۔ ملوکیت کی امتیازی خصوصیات مٹانے کی پوری کوشش کی۔ آپ نے بیت المال کو پھر قومی امانت کا درجہ دیا۔ چھوٹے بڑے کے امتیازات، جبر و اسبتداد کے نشانات اور حکمرانوں کے ظلم و ستم کو ختم کرکے آپ نے خلافت راشدہ کے نقش قدم پر چل کر اسلام کا نظام عدل دوبارہ قائم کیا۔ آپ نے خلافت کی موروثی حیثیت ختم کرنے کے کی کوشش کی لیکن بنو امیہ کی ریشہ دوانیوں نے انہیں یہ تبدیلی لانے کی مہلت نہ دی۔ تجدید و اصلاح کے اس کارنامہ کی بدولت آپ کا زمانہ خلافت راشدہ میں شمار کیا جاتا ہے اور آپ کو چھٹا خلیفہ راشد مانا جاتا ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

تراویح ، رمضان ، Ramzan, Taravih

جس کا کوئی پیر نہیں ، اس کا پیر شیطان ہے کا صحیح مفہوم کیا ہے؟

Hazrat Khwaja Hasan al-Basri rahmatullāhi alaihi :