قادیانی ، Qadiyani

قادیانی:  کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے پیرو ہیں  ، اس شخص نے اپنی نبوت کا دعویٰ کیا اور انبیائے کرام علیہم السلام کی شان میں   نہایت بیباکی کے ساتھ گستاخیاں   کیں  ، خصوصاً حضرت عیسیٰ روح اﷲ وکلمۃاﷲ علیہ الصلاۃ والسلام اور ان کی والدہ ماجدہ طیِّبہ طاہرہ صدیقہ مریم کی شانِ جلیل میں   تو وہ بیہودہ کلمات استعمال کیے، جن کے ذکر سے مسلمانوں   کے دل ہِل جاتے ہیں  ، مگر ضرورتِ زمانہ مجبور کر رہی ہے کہ لوگوں   کے سامنے اُن میں   کے چندبطور نمونہ ذکر کیے جائیں  ، خود مدّعیٔ نبوت بننا کافر ہونے اور ابد الآباد جہنم میں   رہنے کے لیے کافی تھا، کہ قرآنِ مجید کا انکار اور حضور خاتم النبیین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو خاتم النبیین نہ ماننا ہے، مگر اُس نے اتنی ہی بات پر اکتفا نہ کیا بلکہ انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کی تکذیب و توہین کا وبال بھی اپنے سَر لیا اور یہ صدہا کفر کا مجموعہ ہے، کہ ہر نبی کی تکذیب مستقلاً کفر ہے، اگرچہ باقی انبیا و دیگر ضروریات کا قائل بنتا ہو، بلکہ کسی ایک نبی کی تکذیب سب کی تکذیب ہے ،
 چنانچہ آیۂ :               [كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوْحِ ا۟لْمُرْسَلِيْنَ۠ۚۖ۰۰۱۰۵]
            وغیرہ اس کی شاہد ہیں   اور اُس نے تو صدہا کی تکذیب کی اور اپنے کو نبی سے بہتر بتایا۔ ایسے شخص اور اس کے متّبِعین کے کافر ہونے میں   مسلمانوں   کو ہرگز شک نہیں   ہوسکتا، بلکہ ایسے کی تکفیر میں   اس کے اقوال پر مطلع ہو کر جو شک کرے خود کافر۔ 
          اب اُس کے اقوال سُنیے(1) 
            ’’اِزالۂ اَوہام‘‘ صفحہ ۵۳۳:  (خدا تعالیٰ نے ’’براہین احمدیہ‘‘ میں   اس عاجز کا نام امّتی بھی رکھا اور نبی بھی)۔ (2)
            ’’انجام آتھم‘‘ صفحہ ۵۲ میں   ہے:  (اے احمد! تیرا نام پورا ہو جائے گا قبل اس کے جو میرا نام پورا ہو)۔ (3)
            صفحہ ۵۵ میں   ہے:  (تجھے خوشخبری ہو اے احمد! تو میری مراد ہے اور میرے ساتھ ہے)۔(4)
             رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں   جو آیتیں   تھیں   انہیں   اپنے اوپر جَما لیا۔ 
            ’’انجام‘‘ صفحہ ۷۸ میں   کہتا ہے:  [وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ۰۰۱۰۷](5)
’’تجھ کو تمام جہان کی رحمت کے واسطے روانہ کیا۔‘‘ (6)

       نیز یہ آیۂ کریمہ {وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ يَّاْتِيْ مِنْۢ بَعْدِي اسْمُهٗۤ اَحْمَدُ١ؕ }(1) سے اپنی ذات مراد لیتا ہے۔ (2)
            ’’دافع البلاء‘‘ صفحہ ۶ میں   ہے: مجھ کو اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: 
(أَنْتَ مِنِّيْ بِمَنْزِلَۃِ أَوْلاَدِيْ أَنْتَ مِنِّي وَأنَا مِنْکَ)۔
(یعنی اے غلام احمد! تو میری اولاد کی جگہ ہے تو مجھ سے اور میں   تجھ سے ہوں  )۔(3)
            ’’اِزالۂ اَوہام‘‘ صفحہ ۶۸۸ میں   ہے: 
            (حضرت رسُولِ خدا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے اِلہام و وحی غلط نکلی تھیں  )۔(4)
            صفحہ ۸ میں   ہے:
            (حضرت مُوسیٰ کی پیش گوئیاں   بھی اُس صورت پر ظہور پذیر نہیں   ہوئیں  ، جس صورت پر حضرت مُوسیٰ نے اپنے دل میں اُمید باندھی تھی، غایت ما فی الباب(1) یہ ہے کہ حضرت مسیح کی پیش گوئیاں   زیادہ غلط نکلیں  )۔ (2)
            ’’اِزالۂ اَوہام‘‘ صفحہ ۷۵۰ میں   ہے: 
            (سورۂ بقر میں   جو ایک قتل کا ذکر ہے کہ گائے کی بوٹیاں   نعش پر مارنے سے وہ مقتول زندہ ہوگیا تھا اور اپنے قاتل کا پتا دے دیا تھا، یہ محض موسیٰ علیہ السلام کی دھمکی تھی اور علمِ مِسمریزم(3تھا)۔ (4)
            اُسی کے صفحہ ۷۵۳ میں  لکھتا ہے: 
            (حضرت اِبراہیم علیہ السلام کا چار پرندے کے معجزے کا ذکر جو قرآن شریف میں   ہے، وہ بھی اُن کا  مِسمریزم کا عمل تھا)
         صفحہ ۶۲۹ میں   ہے:
            (ایک بادشاہ کے وقت میں   چار سو نبی نے اُس کی فتح کے بارے میں   پیشگوئی کی اور وہ جھوٹے نکلے، اور بادشاہ کو شکست ہوئی، بلکہ وہ اسی میدان میں   مر گیا)۔(1)
            اُسی کے صفحہ ۲۸، ۲۶ میں   لکھتا ہے: 
            (قرآن شریف میں   گندی گالیاں   بھری ہیں   اور قرآنِ عظیم سخت زبانی کے طریق کو استعمال کر رہا ہے)۔(2)
            اور اپنی ’’براہینِ احمدیہ‘‘ کی نسبت ’’اِزالہ‘‘ صفحہ ۵۳۳ میں   لکھتا ہے: 
            (براہینِ احمدیہ خدا کا کلام ہے)۔ (3)
     ’’اَربعین‘‘ نمبر ۲ صفحہ ۱۳ پر لکھا: 
            (کامل مہدی نہ موسیٰ تھا نہ عیسیٰ)۔(1)  اِن اُولو العزم مرسَلین کا ہادی ہونا درکنار، پورے راہ یافتہ بھی نہ مانا۔ 
            اب خاص حضرت عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کی شان میں   جو گستاخیاں   کیں  ، اُن میں   سے چند یہ ہیں ۔ 
            ’’معیار‘‘ صفحہ ۱۳
            (اے عیسائی مِشنریو!  اب  ربّنا المسیح  مت کہو اور دیکھو کہ آج تم میں   ایک ہے، جو اُس مسیح سے بڑھ کر ہے)۔(2)
            صفحہ ۱۳ و ۱۴ میں   ہے: 
            (خدا نے اِس امت میں   سے مسیح موعود بھیجا، جو اُس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں   بہت بڑھ کر ہے اور اس نے اس دوسرے مسیح کا نام غلام احمد رکھا، تایہ اِشارہ ہو کہ عیسائیوں   کا مسیح کیسا خدا ہے جو احمد کے ادنیٰ غلام سے بھی مقابلہ نہیں   کرسکتا یعنی وہ کیسا مسیح ہے، جو اپنے قرب اور شفاعت کے مرتبہ میں   احمد کے غلام سے بھی کمتر ہے)۔(3)

    ’’کشتی‘‘ صفحہ ۱۳ میں   ہے:
            (مثیلِ موسیٰ، موسیٰ سے بڑھ کر اور مثیلِ ابنِ مریم، ابنِ مریم سے بڑھ کر)۔ (1)
            نیز صفحہ ۱۶ میں   ہے:
            (خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ مسیحِ محمدی، مسیحِ مُوسوِی سے افضل ہے)۔(2)
            ’’دافع البلاء‘‘ صفحہ ۲۰ : 
            (اب خدا بتلاتا ہے کہ دیکھو! میں   اس کا ثانی پیدا کروں   گا جو اُس سے بھی بہتر ہے، جو غلام احمد ہے یعنی احمد کا غلام     ؎
ابنِ مریم کے ذکر کو چھوڑو 
اُس سے بہتر غلام احمد ہے 
            یہ باتیں   شاعرانہ نہیں   بلکہ واقعی ہیں   اور اگر تجربہ کی رو سے خدا کی تائید مسیح ابن مریم سے بڑھ کر میرے ساتھ نہ ہو تو میں   جھوٹا ہوں  )۔ (3)
’’دافع البلاء‘‘ ص ۱۵
            (خدا تو، بہ پابندی اپنے وعدوں   کے ہر چیز پر قادر ہے، لیکن ایسے شخص کو دوبارہ کسی طرح دنیا میں   نہیں   لاسکتا، جس کے پہلے فتنہ نے ہی دنیا کو تباہ کر دیا ہے)۔(1)
            ’’انجام آتھم‘‘ ص ۴۱ میں   لکھتا ہے:  
            (مریم کا بیٹا کُشلیا کے بیٹے سے کچھ زیادت نہیں   رکھتا)۔ (2)
            ’’کشتی‘‘ ص ۵۶ میں   ہے:
            (مجھے قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں   میری جان ہے، کہ اگر مسیح ابنِ مریم میرے زمانہ میں   ہوتا تو وہ کلام جو میں   کر سکتا ہوں  ، وہ ہر گز نہ کرسکتا اور وہ نشان جو مجھ سے ظاہر ہو رہے ہیں  ، وہ ہر گز دِکھلا نہ سکتا)۔(3)
            ’’اعجاز احمدی‘‘ ص ۱۳
            (یہود تو حضرت عیسیٰ کے معاملہ میں   اور ان کی پیشگوئیوں   کے بارے میں   ایسے قوی اعتراض رکھتے ہیں   کہ ہم بھی جواب میں   حیران ہیں  ، بغیر اس کے کہ یہ کہہ دیں   کہ’’ ضرور عیسیٰ نبی ہے، کیونکہ قرآن نے اُس کو نبی قرار دیا ہے اور کوئی دلیل اُن کی نبوت پر قائم نہیں   ہوسکتی، بلکہ ابطالِ نبوت پر کئی دلائل قائم ہیں  )۔(1)
            اس کلام میں   یہودیوں   کے اعتراض، صحیح ہونا بتایا اور قرآن عظیم پر بھی ساتھ لگے یہ اعتراض جما دیا کہ قرآن ایسی بات کی تعلیم دے رہا ہے جس کے بُطلان پر دلیلیں   قائم ہیں ۔ 
            ص ۱۴ میں   ہے:  
            (عیسائی تو اُن کی خدائی کو روتے ہیں  ، مگر یہاں   نبوت بھی اُن کی ثابت نہیں  )۔(2)
            اُسی کتاب کے ص ۲۴ پر لکھا : 
            (کبھی آپ کو شیطانی اِلہام بھی ہوتے تھے)۔(3)
            مسلمانو! تمھیں   معلوم ہے کہ شیطانی اِلہام کس کو ہوتا ہے؟ قرآن فرماتا ہے: 
{ تَنَزَّلُ عَلٰى كُلِّ اَفَّاكٍ اَثِيْمٍۙ۰۰۲۲۲}(4)
’’بڑے بہتان والے سخت گنہگار پر شیطان اُترتے ہیں ۔‘‘ 

اُسی صفحہ میں   لکھا:  ( اُن کی اکثر پیش گوئیاں   غلطی سے پُر ہیں  )۔(1)
            صفحہ ۱۳ میں   ہے:
            (افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اُن کی پیش گوئیوں   پر یہود کے سخت اعتراض ہیں  ، جو ہم کسی طرح اُن کو دفع نہیں   کرسکتے)۔(2)
            صفحہ ۱۴ (ہائے! کس کے آگے یہ ماتم لے جائیں  ، کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تین پیش گوئیاں   صاف طور پر جھوٹی نکلیں  )۔(3)
            اس سے ان کی نبوت کا انکار ہے، چنانچہ اپنی کتاب ’’کشتی نوح‘‘ ص ۵ میں   لکھتا ہے: 
            (ممکن نہیں   کہ نبیوں   کی پیش گوئیاں   ٹل جائیں  )۔(4)
            اور ’’دافع الوساوس‘‘ ص ۳ و ’’ضمیمۂ انجام آتھم‘‘ ص ۲۷پر اِس کو سب رُسوائیوں   سے بڑھ کر رسوائی اور ذلت کہتا ہے۔ (5)
            ’’دافع البلاء‘‘ ٹائٹل پیج صفحہ ۳ پر لکھتا ہے: (ہم مسیح کو بیشک ایک راست باز آدمی جانتے ہیں   کہ اپنے زمانہ کے اکثر لوگوں  سے البتہ اچھا تھا واﷲ تعالیٰ اعلم، مگر وہ حقیقی منجی نہ تھا، حقیقی منجی وہ ہے جو حجاز میں   پیدا ہوا تھا اور اب بھی آیا، مگر بُروز کے طور پر۔  خاکسار غلام احمد از قادیان۔ (1)
                آگے چل کر راست بازی کا بھی فیصلہ کر دیا، کہتا ہے: 
            (یہ ہمارا بیان نیک ظنّی کے طور پر ہے، ورنہ ممکن ہے کہ عیسیٰ کے وقت میں   بعض راست باز اپنی راست بازی میں   عیسیٰ سے بھی اعلیٰ ہوں  )۔ (2)
            اسی کے صفحہ ۴ میں   لکھا:
            (مسیح کی راست بازی اپنے زمانہ میں   دوسرے راست بازوں   سے بڑھ کر ثابت نہیں   ہوتی، بلکہ یحییٰ کو اُس پر ایک فضیلت ہے، کیونکہ وہ (یحییٰ) شراب نہ پیتا تھا اور کبھی نہ سنا کہ کسی فاحشہ عورت نے اپنی کمائی کے مال سے اُس کے سر پر عِطر مَلا تھا، یا ہاتھوں   اور اپنے سر کے بالوں   سے اُس کے بدن کو چُھوا تھا، یا کوئی بے تعلق جوان عورت اُس کی خدمت کرتی تھی، اسی وجہ سے خدا نے قرآن میں   یحییٰ کا نام ’’حصور‘‘ رکھا، مگر مسیح کا نہ رکھا، کیونکہ ایسے قصّے اس نام کے رکھنے سے مانع تھے)۔(1)
            ’’ضمیمۂ اَنجام آتھم‘‘ ص ۷ میں   لکھا:
            (آپ کا کنجریوں   سے مَیلان اور صحبت بھی شاید اِسی وجہ سے ہو کہ جَدّی مناسبت درمیان ہے، ورنہ کوئی پرہیزگار انسان ایک جوان کنجری کو یہ موقع نہیں   دے سکتا کہ وہ اُس کے سر پر اپنے ناپاک ہاتھ لگا دے اور زناکاری کی کمائی کا پلید عطر اس کے سر پر مَلے اور اپنے بالوں   کو اُس کے پیروں   پر مَلے، سمجھنے والے سمجھ لیں   کہ ایسا انسان کس چلن کا آدمی ہوسکتا ہے)۔(2)
            نیز اس رسالہ میں   اُس مقدّس و برگزیدہ رسول پر اور نہایت سخت سخت حملے کیے، مثلاً شریر، مکار، بدعقل، فحش گو، بدزبان، جھوٹا، چور، خللِ دماغ والا، بد قسمت، نِرا فریبی، پیرو شیطان (3) ، حد یہ کہ صفحہ ۷ پر لکھا: (آپ کا خاندان بھی نہایت پاک ومطہّر ہے، تین دادیاں   اور نانیاں   آپ کی زناکار اورکسبی عورتیں   تھیں  ، جن کے خون سے آپ کا وجود ہوا)۔(4)
ہر شخص جانتا ہے کہ دادی باپ کی ماں   کو کہتے ہیں   تو اس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لیے باپ کا ہونا بیان کیا، جو قرآن کے خلاف ہے۔
             اور دوسری جگہ یعنی ’’کشتی نوح‘‘ صفحہ ۱۶ میں   تصریح کر دی:  
            (یسوع مسیح کے چار بھائی اور دو بہنیں   تھیں  ، یہ سب یسوع کے حقیقی بھائی اور حقیقی بہنیں   تھیں  ، یعنی یوسف اور مریم کی اولاد تھے)۔ (1)
            حضرت مسیح علیہ الصلاۃ والسلام کے معجزات سے ایک دم صاف انکار کر بیٹھا: 
            ’’انجامِ آتھم‘‘ صفحہ ۶ میں   لکھتا ہے:  (حق بات یہ ہے کہ آپ سے کوئی معجزہ نہ ہوا)۔(2)
            صفحہ ۷ پر لکھا:  (اُس زمانہ میں   ایک تالاب سے بڑے بڑے نشان ظاہر ہوتے تھے، آپ سے کوئی معجزہ ہوا بھی تو وہ آپ کا نہیں  ، اُس تالاب کا ہے، آپ کے ہاتھ میں   سِوا مکروفریب کے کچھ نہ تھا)۔(3)
’اِزالہ‘‘ کے صفحہ ۴ میں   ہے:
            (ما سِوائے اِس کے اگر مسیح کے اصلی کاموں   کو اُن حواشی سے الگ کرکے دیکھا جائے جو محض افتراء یا غلط فہمی سے گڑھے ہیں   تو کوئی اعجوبہ نظر نہیں   آتا، بلکہ مسیح کے معجزات پر جس قدر اعتراض ہیں   میں   نہیں   سمجھ سکتا کہ کسی اور نبی کے خَوارق (1) پرایسے شبہات ہوں  ، کیا تالاب کا قصّہ مسیحی معجزات کی رونق نہیں   دُور کرتا)۔(2)
            کہیں   اُن کے معجزہ کو کَلْ(3) کا کھلونا بتاتا ہے(4)، کہیں   مسمریزم بتا کر کہتا ہے: 
            (اگر یہ عاجز اِس عمل کو مکروہ اور قابل نفرت نہ سمجھتا تو اِن اعجوبہ نمائیوں   میں   ابنِ مریم سے کم نہ رہتا)۔(5)
            اور مسمریزم کا خاصہ یہ بتایا : 
            (کہ جو اپنے تئیں   اس مشغولی میں   ڈالے، وہ رُوحانی تاثیروں   میں   جو روحانی بیماریوں   کو دور کرتی ہیں  ، بہت ضعیف اور نکمّا 
ہوجاتاہے، یہی وجہ ہے کہ گو مسیح جسمانی بیماریوں   کو اِس عمل کے ذریعہ سے اچھا کرتے رہے، مگر ہدایت و توحید اور دینی استقامتوں   کے دِلوں   میں   قائم کرنے میں   اُن کا نمبر ایسا کم رہا کہ قریب قریب ناکام رہے)۔ (1)  
            غرض اِس دجّال قادیانی کے مُزَخرفات (2) کہاں   تک گنائے جائیں  ، اِس کے لیے دفتر چاہیے، مسلمان اِن چند خرافات سے اُس کے حالات بخوبی سمجھ سکتے ہیں  ، کہ اُس نبی اُولو العزم کے فضائل جو قرآن میں   مذکور ہیں  ، اُن پر یہ کیسے گندے حملے کر رہا ہے۔۔۔! تعجب ہے اُن سادہ لوحوں   پر کہ ایسے دجّال کے متبع ہو رہے ہیں  ، یا کم از کم مسلمان جانتے ہیں ۔۔۔! اور سب سے زیادہ تعجب اُن پڑھے لکھے کٹ بگڑوں   سے کہ جان بوجھ کر اس کے ساتھ جہنم کے گڑھوں   میں   گر رہے ہیں ۔۔۔! کیا ایسے شخص کے کافر، مرتد، بے دین ہونے میں   کسی مسلمان کو شک ہوسکتا ہے۔ حَاشَ للہ! 
’’مَنْ شَکَّ فيْ عَذَابِہ وَکُفْرِہ فَقَدْ کَفَرَ۔‘‘ (3)
’’جو اِن خباثتوں  پر مطلع ہو کر اُس کے عذاب و کفر میں   شک کرے، خود کافر ہے۔‘‘

Comments

Popular posts from this blog

تراویح ، رمضان ، Ramzan, Taravih

جس کا کوئی پیر نہیں ، اس کا پیر شیطان ہے کا صحیح مفہوم کیا ہے؟

Hazrat Khwaja Hasan al-Basri rahmatullāhi alaihi :