زکاة ۔ zakat

-: کتاب الزکوة :-

کیا آپ جانتے ہیں ؟
قسط ؛ ۷

( “ زکاة میں جس قدر چیز محتاج کی ملک میں گئی بازار کے بھاؤ سے جو قیمت اس کی ہے وہی مجراہوگی “ )

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ان دنوں قحط میں بعض آدمی مد زکوٰۃ میں بھوکوں کو غلّہ مکّا وغیرہ تقسیم کر تے ہیں ، یہ جائز ہے یا نہیں؟بینواتوجروا

الجواب:

زکوٰۃ میں روپے وغیرہ کہ عوض بازار کے بھاؤ سے اس قیمت کا غلّہ مکّا وغیرہ محتاج کو دے کر بہ نیت زکوٰۃ مالک کردینا جائز و کافی ہے ، زکوٰۃ ادا ہوجائیگی ، جس قدر چیز محتاج کی مِلك میں گئی بازار کے بھاؤ سے جو قیمت اس کی ہے وہی مجراہوگی بالائی خرچ محسوب نہ ہوں گے ، مثلاآج کل مکّا کا نرخ نَو سیر ہے نَو من مکّا مول لے کر محتاجو ں کو بانٹی تو صرف چالیس روپیہ زکوٰۃ میں ہوں گے ، اُس پر جو پلّہ داری یا باربرداری دی ہے حساب میں نہ لگائی جائےگی ، یا گاؤں سے منگا کر تقسیم کی تو کرایہ گھاٹ چونگی وضع نہ کریں گے ، یا غلّہ پکا کر دیا تو پکوائی کی اُجرت ، لکڑیوں کی قیمت مجرانہ دینگے، اس کی پکی ہوئی چیز کو جو قیمت بازار میں وہی محسوب ہو گی ،
لان رکنھا التملیك من فقیر مسلم لو جہ اﷲ تعالی من دون عوض۔
کیونکہ اس کا رکن یہ ہے کہ کسی فقیر کو اﷲکی رضاکی خاطر اس کا مالك بنایا اور بطور معاوضہ نہ ہو ۔

درمختار میں ہے :
لو اطعم یتیما نا ویا الزکوٰۃ لا یجزیہ الا اذا دفع الیہ المطعوم کمالوکساہ۔ ‪
جب کسی نے یتیم کو نیتِ زکوٰۃ سے کھانا کھلایا زکوٰۃ ادا نہ ہوگی جب تك کھانا اس کے حوالے نہ کردے، ایسے ہی لباس کا معاملہ ہے ۔

عالمگیری میں ہے :
ماسواہ من الحبوب لا یجوزالابالقیمۃ۔ ‪
یہ دانوں کے علاوہ میں ہے کیونکہ وہاں قیمت ہی ضروری ہے ۔

اسی میں ہے : الخبز لا یجوز الا باعتبار القیمۃ ‪[]‬
(روٹی کا اعتبار قیمت کے بغیر جائز نہیں ۔

واﷲسبحٰنہ وتعالٰی اعلم و علمہ جل مجدہ اتم واحکم۔


‪جاری ہے ۔۔۔۔۔‬

( “ الرسالہ تجلی الشکاة لانارة اسئلة الزکاة “ )
( “ الفتاوی الرضویہ “ کتاب الزکوة ، جلد ۱۰ ، صحفہ ۷۹ )

طالب دعا : سید جیلانی میاں جیلانی
خانقاہ مدنی سرکار ۔ موربی

Comments

Popular posts from this blog

تراویح ، رمضان ، Ramzan, Taravih

جس کا کوئی پیر نہیں ، اس کا پیر شیطان ہے کا صحیح مفہوم کیا ہے؟

Hazrat Khwaja Hasan al-Basri rahmatullāhi alaihi :